(24 نیوز) نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر قومی احتساب بیورو نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنانے کا تحریری موقف سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان اگر نیب قانون کو ختم کر دے تو عدالت کیا کر سکے گی ؟ کیا سپریم کورٹ نے کسی ختم کیے گئے قانون کو بحال کرنے کا کبھی حکم دیا ہے؟۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا ماضی میں سپریم کورٹ کرپشن کو ملک کیلئے کینسر قرار دے چکی ہے، نیب قانون کو مضبوط کرنے کے بجائے ترامیم سے غیر موثر کیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمان اگر نیب قانون کو ختم کر دے تو عدالت کیا کر سکے گی ؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا سپریم کورٹ 1990 میں واپس لیا گیا قانون بحال کرنے کا حکم دے چکی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پارلیمان بھی آئین اور شریعت کے تابع ہوتی ہے، احتساب اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ عمران خان کے وکیل نے کہا پلی بارگین سے متعلق قانون میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، پلی بارگین ختم ہونے پر ملزم نیب ترمیم کا فائدہ اٹھا کر بری ہونے کے ساتھ پلی بار گین کی رقم واپس مانگ سکتا ہے۔
چیف جسٹس بولے اس طرح تو ریاست کو اربوں روپے کی ادائیگی کرنا پڑے گی، گرفتاری کے دوران پلی بارگین کرنے والا دباؤ ثابت بھی کر سکتا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا منتخب نمائندے حلقے میں کام نہ ہونے پر عدالت ہی آسکتے ہیں اسمبلی نہیں جاتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان پر بھی عوام نے اعتماد کر کے اسمبلی بھیجا تھا وہاں نیب ترامیم کو اٹھاتے۔ عمران خان کی وکیل نے کہا اسمبلی میں شور کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، حکومت اکثریت سے قانون منظور کروا لیتی ہے۔ عدالت نے مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔