الیکشن ملتوی ؟افغان مہاجرین کی واپسی پر زور،کیا افغانی واپس جائیں گے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)پاکستان کے مختلف سیاسی اور عوامی حلقے کافی عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملک میں موجود لاکھوں غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کو اب واپس افغانستان بھیج دیا جائے تاکہ پاکستانی سیاست اور معاشرت پر ان کے منفی اثرات کو ختم یا کم کیا جا سکے۔ دوسری طرف ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ رفیوجیز کو اقوام متحدہ کے قوانین اور حکومت پاکستان کی رضامندی سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ اس لئے ان کو اس وقت تک واپس نہیں بھیجنا چاہئے جب تک افغانستان میں مکمل امن نہیں آتا یا درکار عالمی تقاضے پورے نہیں کئے جاتے۔دوطرفہ بحث یا دلائل سے قطع نظر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے ٹھوس اقدامات اور فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ موجودہ افغانستان میں حالات اب کافی بہتر ہیں۔پاکستان میں ایک عام تصور یہ ہے کہ امن و امان کی خرابی میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ جبکہ بعض شواہد بھی یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ مختلف اوقات میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات میں افغان اور ان کے کیمپ استعمال ہو تے رہے ہیں۔پروگرام’10تک‘میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ یہ رائے بھی بہت عام ہے کہ انغیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے باعث پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ملکی سیاست پر ان کی موجودگی کے اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔دہشت گردی کی بات کی جائے تو کل وزیر داخلہ کچھ اعداد و شمار پیش کیے جس کے بعد آج نگران وزیر اطلاعات بلوچستان بھی یہی دعویٰ دھرایا، نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے بتایا کہ کچھ عرصے میں ہونے والے دھماکوں میں افغان باشندےاستعمال ہوئے ۔لیکن اب پاکستان اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ہمارے افغان بھائی جن کو ہم نے کئی عشروں سے رکھا اور عزت دی وہ دہشت گردی کی وارداتیں کریں یا ملک اور قوم کو نقصان پہنچائیں۔
دوسری جانب کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں حالیہ رونما ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات مین افغان عناصر ملوث تھے۔ چند مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغانی حملہ آور تھے۔ 12 مئی 2023 کو مسلم باغ میں ہونے والے دہشتگرد حملے میں 5 ٹی ٹی افغانی دہشتگرد ملوث تھے۔ 12 جولائی 2023 کو ژوب کینٹ پر دہشتگردوں کے بزدلانہ وار میں 5 میں سے 3 افغانی دہشتگرد تھے۔ 30 جنوری 2023، پولیس لائنز پشاور اور 29 ستمبر 2023 کوہنگو میں خودکش حملہ آوروں کا تعلق بھی افغانستان سے تھا،اس کے علاوہ ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں رواں سال 3 ہزار 911 افغان مہاجرین جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا میں رواں سال597 افغان مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈ بنانے کی کوشش میں گرفتار ہوئے، 6 لاکھ 48 ہزار 968 افغان مہاجرین کے پاس پی او آر کارڈ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف سال 2007 کے دوران 352 افغان مہاجرین کو جعلی پاکستانی پاسپورٹوں پر سعودی عرب کا سفر کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ 2012 میں گرفتاریوں کی یہ تعداد 250 جبکہ 2013 میں یہ تعداد 218 رہی۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک بھر میں 8 لاکھ 40 ہزار جبکہ پورے خیبر پختونخوا میں 3 لاکھ 70 ہزار افغان مہاجرین کے پاس افغان شہریت کےکارڈ ہیں۔ دستاویز کے مطابق امارات اسلامی حکومت قیام کے بعد افغان مہاجرین کی آمد میں اضافہ ہوا، غیر قانونی مقیم افغانوں میں 51 فیصد خیبر پختونخوا میں رہائش پزیر ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کی 105 مساجد میں افغان مہاجرین بطور پیش امام ہیں۔بلوچستان کی بات کی جائے تو اس وقت بلوچستان میں افغان مہاجرین کی مجموعی تعداد 5 لاکھ 84 ہزار ہے، ان میں سے تقریبا 3 لاکھ 13 ہزار وہ ہیں جو جنہیں پی او آر یا رجسٹرڈ افغان ریفوجیز کے طور جانا جاتا ہے، ان میں 2 لاکھ 74 ہزار وہ افغان شہری ہیں جن کو اے سی سی ہولڈرز یا سیٹیزن کارڈ ہولڈرز کے طور پر جانا جاتا ہے۔تھوڑا اور پیچھے کا سفر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں مہاجرین کا پہلا بڑا ریلا سال 1979-80 کے دوران اس وقت داخل ہوا تھا جب افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے نام پر مزاحمت اور جنگ کا آغاز ہوا اور لاکھوں سادہ لوح افغان اس تصور اور خوف کی بنیاد پر وہاں سے نکل آئے تھے کہ ان کے مذہبی عقائد اور سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹس کے مطابق سال 1981 تک پاکستان میں 33 لاکھ افغان مہاجرین پہنچ چکے تھے۔ جبکہ ایران پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباً 20 لاکھ تھی۔ 1981-82تک پاکستان کے اندر ان مہاجرین کے لئے تقریباً 300 چھوٹے بڑے کیمپ قائم کئے گئے تھے۔ ابتدا میں یہ لوگ کیمپوں ہی تک محدود رہے تاہم بعد میں حکومتوں کی سُستی اور ناقص پلاننگ کے باعث یہ شہروں اور دیگر علاقوں میں پھیلنا شروع ہو گئے اور یوں یہ لاکھوں لوگ عملاً پاکستانی معاشرے کا حصہ بن بیٹھے۔ اس کے برعکس ایران نے ان کو کیمپوں تک محدود اور شہروں سے دور رکھا جس کے باعث وہاں کی سیاست اور معاشرت کو مہاجرین کے منفی اثرات سے بچا کر رکھا گیا اور یہ پالیسی پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر اور سود مند ثابت ہوئی۔ پاکستان کے اندر حالات یہ ہیں کہ ان کو کاروبار کرنے اور کھلے عام گھومنے پھرنے کی ایسی ہی اجازت دی گئی جیسے کہ عام پاکستانیوں کو تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 1988 کے دوران صرف پشاور شہر کی 48 فیصد ٹرانسپورٹ پر افغانیوں کا قبضہ تھا۔نومبرمیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ صرف پشاور اور اس کے مضافات میں تقریباً 10 لاکھ افغانی رہائش پذیر ہیں۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ جو 33 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے ہوئے تھے ان میں 81 فیصد نسلی اعتبار سے پشتون تھے۔ باقی میں 7 فیصد تاجک‘ 3فیصد ازبک‘ 2 فیصد ہزارہ اور 3فیصد ترکمان رہے۔ مجموعی طور پرمہاجرین کے تقریباً 75فیصد کو صوبہ خیبر پختونخوا خصوصاً وادی پشاور میں بسایا گیا۔ جبکہ 18 فیصد کو بلوچستان کے پشتون علاقوں میں بسایا گیا۔ یوں پاکستان کے دو اہم صوبوں کی پشتون آبادی مہاجرین کے منفی اثرات کی زد میں آ گئی اور اس صورت حال نے ان علاقوں کی معاشرت‘ ثقافت اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ سال 1990 تک پشاور‘ افغانستان کے کسی شہر کا نقشہ پیش کرتا رہا۔ شاید ہی کوئی ایسی گلی یا بازار ہو جہاں افغانی موجود نہ ہوں۔ اب بھی تقریباً ایسی ہی صورت حال ہے۔
اب پاکستان نے تمام تر مسائل پیدا کرنے کے بعد اب اس پالیسی سے اچانک بہت بڑا شفٹ لے لیا اور ایک ماہ کے اندر ہی ان مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔یہ ڈیڈ لائن اپنی نوعیت میں ہی بہت زیادہ قابل عمل محسوس نہین ہوتی ۔کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ وہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین جن کو واپس بھیجنے کی بات کی جارہی ہے پاکستان میں اپنی جڑین مضبوط کر چکے ہیں ۔ان کے یہاں کاروبار لاہور سے پشاور،پشاور سے کوئٹہ اور کراچی تک پھیلے ہوئے ۔اور یہ سب کچھ غیر منظم انداز میں جاری ہے۔اچانک سے پالیسی شفٹ سے نہ تو اپنا کاروبار بیچنے اور ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی پاکستان اس قابل ہے کہ وہ اس اقدام کے ذریعے غیر روایتی ہی سہی لیکن معیشت کا ایک بڑا حصہ خود ختم کر کے اس نقصان کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔عالمی طور پر بھی سخت ردعمل کی توقع ہے اور یہ ردعمل آنا بھی شروع ہو چکا ہے۔پہلا ردعمل افغٓنستان کی جانب سے ہی آیا ہے جہاں فغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور حکام پر زور دیا کہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اردو اور انگریزی زبانوں میں ایک بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے، اس حوالے سے انہیں اپنے پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے سیکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں، جب تک مہاجرین اپنی مرضی اور اطمینان سے پاکستان سے نہیں نکلتے، انہیں برداشت سے کام لینا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی پناہ گزینوں کے لیے خوف کی فضا پیدا کرنے پر اظہارِ تشویش کیا اور حکومتِ پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کو گرفتار اور ہراساں کرنے کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے بھی اس ڈیڈ لائن کی مخالفت کی ہے، پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر (یو این ایچ سی آر) کے ایک عہدیدار قیصر خان آفریدی نے ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ کو بتایا کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔یہ پالیسی خوش آئند ہے لیکن اس کی ٹائمنگ اور طریقہ کار پر سخت تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ماضی مین بھی طالبان سے متعلق پالیسی بنانے پر جمہوری قوتوں نے سخت احتجاج کیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی کی حکومت مین ٹی ٹی پی سے مذکرات کی کوششین کی جارہی تھی اور ان کی آبادکاری پر زور دیا جارہا تھا۔اس وقت پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے ان خفیہ مذکرات پر اعتراض اٹھائے تھے جس کے بعد اس معاملے کو پارلیمنٹ مین زیر بحث لایا گیا تھا۔جہاں پر تمام جماعتوں نے ہی ان سے مذکرات کرنے اور انہیں واپس لانے کے معاملے کی مخالفت کی تھی،اب بھی یہی سب سے بڑا سوال کہ اتنی بڑی پالیسی جس پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جانا ضروری تھا کیسے ایک نگران حکومت کے دور میں قابل عمل ہو گی ؟یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر یہ پالیسی لاگو بھی کر دی جائے تو آنے والی منتخب حکومت اس پالیسی کا وزن اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو تیار ہو گی جس کی فیصلہ سازی میں وہ سرے سے شریک ہی نہیں تھی ۔یہاں اس پالیسی شفٹ کی ٹائمنگ پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔الیکشن سے چند ماہ پہلے اتنی بڑی پالیسی جو کو پایہ تکمیل کے لیے خاصاوقت درکار ہوگا کو لاگو کرنے کا مقصد کیا۔لامحالہ ان اقدامات سے وقتی طور پر کچھ امن و امان کی صورتحال پیدا ہو گی ۔اسی صورتحال کو بنیاد بنا کر پنجاب اور کے پی الیکشن ملتوی کیے گئے تھے ۔ تو کیا اب جنرل الیکشن بھی مزید ملتوی کرنے کا ایک بہانہ پیدا نہیں کیا جا رہا ہے۔یہاں سوال یہ بھی کہ مہاجرین کو تو وپس بھیج دیا جائے لیکن اس سے معیشت پر پڑنے والے نقصان کو برداشت کرنے کی کوئی پلاننگ کی گئی َاگر کی گئی تو وہ پلاننگ کیا ہے۔عالمی ردعمل کا کیا سدباب کیا گیا ہے۔قوام عالم میں ہم پہلے ہی تنہاہیوں کا شکار ہے ۔کیا س پالیسی سے تنہائی مزید شدید نہیں ہو گی ،سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ بیک وقت اتنے سارے محاز کھولنا درست ہوگا؟ایسے وقت میں جب ذخیرہ اندوزی ،ڈالر مافیا،بجلی چور، سکیورٹی ایشو سمیت بہت سے مسائل سے ہم لڑ رہے ہیں ایک نیا اور ان سب سے بڑا ایشو کھول کر ہم مزید مصیبتوں میں نہیں جکڑے جائینگے؟