سیلاب نے 65 سالہ کریم بخش کو چوتھی بار بے گھر کردیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
(علی رامے )15 اگست رات تین بجے کا وقت تھا جب ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور میں واقع موضع رکھ عظمت والا میں کریم بخش اپنے گھر میں سو رہے تھے کہ اچانک لوگوں کی چیخیں سنائیں دیں کہ پانی آگیا پانی اور سب گھروں سے نکلو۔کریم بخش بھی اس وقت بچوں کے ساتھ جلدی سے بھاگ نکلے اور سامنے ایک پل پر آکر کھڑے ہوگئے۔
کریم بخش کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے پانچ منٹ میں ان کا گھر تیز برساتی نالہ بہا کر لے گیا۔اور وہ رات کریم بخش اور ان کے دیگر ہمسایہ داروں نے موضع رکھ عظمت والا کے ساتھ بہتے ہوئے برساتی نالے کے پل پر گزاری جو بچ گیا تھا۔ کریم بخش کہتے ہیں کہ صبح ہوئی تو دیکھا ان کے گھر کی جگہ اب صرف پانی ہے اور کچھ نہیں۔موضع رکھ عظمت والا میں سیلاب متاثرین بتاتے ہیں کہ پانی چھ سے سات فٹ تک آچکا تھا اور لوگون کو اپنا سامان تک نکالنے کا وقت بھی نہیں ملا کیونکہ پانی کا بہاو بہت تیز تھا جس کی اصل وجہ یہ تھی جس برساتی نالے سے وہ پانی آیا وہ ان کی بستی سے چند میٹر کے فاصلے پر ہی تھی۔
کریم بخش اس بستی میں وہ واحد ہیں جو جنوبی پنجاب کے برساتی نالوں اور سیلاب کے باعث چوتھی بار اپنا گھر کھو چکے ہیں اس سے پہلے کوہ سلیمان کی پہاڑیوں کے قریب واقع بستیوں میں رہتے تھے جہاں سے اس لیے نکلے کیونکہ سیلاب کے باعث وہ آئے روز گھر کھو بیٹھتے تھے کریم بخش سیلاب کے باعث سب کچھ کھو جانے کے بعد اب غمزدہ ہیں ان کی آنکھوں میں بے بسی کے آثار نمایاں ہیں کیونکہ ان کے گھر کیساتھ ساتھ ذریعہ معاش کے لیے لگائی گئی ایک چکی بھی برساتی نالے میں بہہ چکی ہے اور چکی کے اطراف موجود سیلابی پانی کو اپنے ہاتھوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ شائد ان کے روز گار کا یہ واحد وسیلہ پھر سے ان کے بچوں خاندان کی کفالت کرسکے۔
کریم بخش کے دو بیٹے بھی ہیں جو محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن وہ پھر اپنے روزگار کے لیے خود بھی بعض اوقات محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔کریم بخش کہتے ہیں گھر تباہ ہوچکا ہے اور چکی بھی گئی کیونکہ ان کے آس پاس سے آٹا پسوانے کے لیے آنے والوں کے پاس اب گندم بھی رہی تو انہیں لگتا ہے کہ وہ اگلے سال تک بھی چکی شاید نہ چلا سکیں کیونکہ گندم ہو گی تو ا نکی چکی پر کوئی آٹا پسوانے آئے گا ۔
کریم بخش کی امیدیں اب حکومت سے ہیں کہ انہیں وسیلہ روزگار کیساتھ جلد سر چھپانے کے لیے چھت مل جائے۔سیلاب کی تباہ کاریایوں میں اب متاثرین کی دکھ بھری داستانیں ہیں لیکن ان کی داد رسی کے لیے سیلاب زدگان کی نظریں اب اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں پر ہیں۔