پاک فضائیہ حملہ پسپا نہ کرتی توبھارت لاہور تک پہنچ جاتا ,ایئروائس مارشل (ر)فاروق عمر
بھارتی پائلٹس نے بدحواسی میں شوشہ چھوڑا کہ فرشتے گولے پکڑلیتے ہیں ,6 سٹارفائٹرز کی دہشت 120 سے زیادہ تھی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ایم وقار)جنگ ستمبر میں جانبازی و سرفروشی کی محیرالعقول داستانیں رقم کرنے والے پاک فضأوں کے نگہبانوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جس میں سے ایک رخشندہ و تابندہ نام ایئروائس مارشل(ر)فاروق عمرپاک کا ہے جوپاک فضائیہ کے ناقابل شکست فضائی سرفروش اورلیجنڈری سٹارفائٹر پائلٹ ہیں۔ 1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں ایم ایم عالم اورسرفراز رفیقی کے ساتھ مل کربھارتی فضائیہ کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا،بے مثال شجاعت کی کئی داستانیں رقم کرنے پرانہیں ہلال امتیاز(ملٹری)،ستارہ جرأت،ستارہ امتیاز (ملٹری)، ستارہ بسالت اورتمغہ بسالت جیسے اعلٰی اعزازات سے نوازاجاچکاہے،وہ پی اے سی کامرہ کے سی ای او اورڈائریکٹر جنرل رہے،اس دوران انہوں نے مشاق جہاز کوسُپرمشاق اورچین کی مدد سے قراقرم 8جیٹ ٹرینر جہاز تیارکروایاپھر جے ایف 17تھنڈر کے ابتدائی مراحل کے کام کوبھی پایۂ تکمیل تک پہنچایاجواب پاکستان مینوفیکچر کررہاہے،پی آئی اے اورشاہین ایئرلائن کے سربراہ بھی رہے،پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے اس دوران اپریل 1994ء میں پاکستان ورلڈچیمپئن ٹرافی اوردسمبر1994ء میں ورلڈکپ جیت کرہاکی کاورلڈچیمپئن بنا۔عرب دُنیاکی فضائی جنگوں کے فاتحین میں بھی ان کاشمار ہوتاہے انہوں نے پاک فضائیہ کے دیگر افسران کیساتھ لیبیااورشامی فضائیہ کوتربیت دی،لیبیاکے معمرقذافی اورمصری صدر انورسادات ان سے فضائی ٹریننگ حاصل کرتے رہے۔
24جولائی 1941ء کو فیصل آباد میں پیدا ہونےوالے ایئروائس مارشل (ر)فاروق عمرکے والد میاں محمد نوراللہ پنجاب کی پہلی ممدوٹ کابینہ میں وزیرخزانہ،لندن سکول آف اکنامکس کے فارغ التحصیل اورقائداعظمؒ کے ساتھیوں میں سے تھے،طارق آباد میں واقع ان کے گھر کو قائداعظمؒ کی ایک رات کیلئےمیزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔فاروق عمر1958ء میں ایئرفورس کاحصّہ بنے،جیٹ کنورژن سکول سے رول آف آنر حاصل کرنے کیساتھ ساتھ اکیڈمک ٹرافی بھی حاصل کی،1965ء کی جنگ سٹار فائٹر پائلٹ کے طور پرلڑی، ایئرچیف مارشل اصغرخان اورایئرچیف مارشل نورخان کے اے ڈی سی بھی رہے تھے،جنگ ستمبر کے حوالے سے ایم ایم عالم کے ساتھی اورسٹار فائٹر پائلٹ ایئروائس مارشل (ر) فاروق عمر کی یادداشتیں پیش کی جا رہی ہیں۔
سوال:ائیر فورس میں کیسے آئے؟
فاروق عمر:میرے والدین ہرسال حج کرنے جاتے تھے،1958ء میں وہ حج کیلئے گئے تو ان کی غیر موجودگی میں ائیرفورس میں بھرتی ہوگیا،والد نے واپس آکر سرزنش کی اور ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی کہ تم محنت کروگے اوراپنے کزن بریگیڈئیر حبیب اکرم کی طرح شمشیر اعزاز حاصل کروگے، 26 جون 1960ء کومیری ائیر فورس سے گریجوایشن تھی اورپاکستان ائیر فورس کے گرینڈفادر ائیرمارشل اصغر خان مہمان خصوصی تھے،وہاں شمشیر اعزاز،بہترین کیڈٹ ٹرافی اور دیگر تمام اعزازات میرے حصّے میں آئے،اس کے بعد جیٹ کنورژن سکول سے رول آف آنر حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اکیڈمک ٹرافی بھی حاصل کی جہاں ایم ایم عالم جیسے لیجنڈ کمانڈر تھے،پھروہاں سے ٹرانسفر ہوکر سرگودھا آگیاجہاں سیسل چودھری جیسے لوگ تھے۔
ایئر مارشل اصغر خان ہر سال مقابلے کرواتے تھے جس میں میری کارکردگی بہت اچھی ہوتی تھی اور اسی وجہ سے ائیر چیف مارشل جمال احمد خان اور ائیرمارشل صدرالدین نے مجھے ایف 104 سٹار فائٹر کےلئے منتخب کرلیا۔1965ء کی جنگ میں میں سٹار فائٹر پائلٹ تھا۔جنگ سے پہلے 1964ء میں میں ایئرچیف مارشل اصغرخان کا اے ڈی سی منتخب ہوگیا،جب ایئرمارشل اصغر خان سے میری گپ شپ ہوئی تو انہیں احساس ہوا کہ ایک سٹار فائٹرپائلٹ کے ساتھ زیادتی ہوگئی ہے اس طرح انہوں نے مجھے اجازت دیدی کہ تم ایف86 میرے ساتھ پشاو ر میں اُڑاؤ اور ہر 3ماہ بعد 15 دن کیلئے سرگودھا جاکر فلائنگ کرو۔
سوال:65 ء کی جنگ میں آپ کہاں تعینات تھے؟
فاروق عمر:میں 65ء اور 71ء کی جنگوں کے دوران سرگودھا میں ہی تھااور کئی مشنزکامیابی سے مکمل کئے۔65ء میں 5سکواڈرن میں تھا،ہمارا آدھا سکواڈرن جنگ سے پہلے کراچی بھیج دیا گیا تھامیں بھی وہیں تھا اور جولائی 1965ء میں ہمیں پتہ چلا کہ بھارت نے رن آف کَچھ میں حملہ کردیا ہے، ہم اس وقت ماری پو رمیں تھے،ہماری فوج نے اچھّا مقابلہ کیا لیکن بھارتی فضائیہ اسے مسلسل تنگ کررہی تھی اس لئے پاک فضائیہ کی خدمات حاصل کی گئیں تو میں اورمیرے ساتھی پائلٹ بھارتی فضائیہ کو بھگاتے رہے،بھارتی پائلٹ ہمارے سٹار فائٹرز سے بہت ڈرتے تھے، جب بھی سٹار فائٹر کے بارے میں انہیں پتہ چلتا تو وہ دُم دبا کر بھاگ جاتے تھے،اس وقت پاک فضائیہ کے پاس12 سٹار فائٹر تھے لیکن ان کی دہشت 120 سے بھی زیادہ تھی،رن آف کَچھ کے بعد کشمیر میں کنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا ہوگئی اور ہم وہاں فلائنگ ڈیوٹی کرنے لگ،کشمیر میں بھی بھارتی پائلٹ سٹار فائٹرز کے ساتھ پنگا نہیں لیتے تھے کیونکہ سٹار فائٹرز کے پاس ریڈار تھا، میزائل بھی تھے۔
کشمیر آپریشن کے دوران جنرل اختر علی ملک، جنرل ایوب خان،وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹواور دیگر کے پلان کے مطابق آپریشن جبرالٹرشروع ہوگیاجس کا مقصد بھارتی درندگی کوروکناتھا،وہاں کچھ کمانڈوز بھی بھیجے گئے تھے،جنرل اختر علی ملک کو اکھنور کے پاس سے کنٹرول لائن کاٹنے کی ذمّہ داری دی گئی اور جب وہ کامیاب ہوتے دکھائی دئیے تو بھارتی فضائیہ حرکت میں آگئی،اس وقت ایف 86 میں فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز بھٹّی نے جاکر بھارت کے دو ویمپائرز گرادئیے،جب بھارتی فوج نے دیکھا کہ پاکستانی فوج کی پیش قدمی نہیں رُک رہی اور وہ کنٹرول لائن کاٹنے ہی والی ہے تو بھارت نے واہگہ کے راستے لاہور پر حملہ کردیا۔
کہا جارہا تھا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا لیکن اس نے ایسا کردیا،بھارت کے لاہور پر حملے کا مقصد کنٹرول لائن پر دباؤ کو کم کرنا تھا،جب بھارت نے واہگہ پر حملہ کیا توائیر مارشل نور خان نے مجھے امرتسر میں لولیول سُپرسانک بوم(دھماکہ) کرنے کی ہدایت کی تاکہ بھارتیوں کوڈرایا دھمکایا جائے کہ ہم سے پنگا نہ لو، میں نے امرتسر پرسُپرسانک بوم کیا جو بم سے بھی زیادہ دھماکہ تھا، نورخان نے ریڈیو پر آکرکامیابی پر شاباش دی اور ساتھ ہی دوبارہ یہ عمل دہرانے کیلئے بھی کہا،اس کے لئے مجھے گھوم کر آنا پڑاجو کافی خطرناک بھی تھا کیونکہ اس وقت تک دُشمن الرٹ ہوچکا تھا،میں گھوم کر واپس آیاتوتوپوں کے گولوں سے آسمان سُرخ تھا،اس کے باوجود میں وہاں گھس گیا اور ایک بارپھر دھماکہ کردیا،توپوں کے گولے میرے جہاز کے اوپر نیچے اور دائیں بائیں سے گزر رہے تھے لیکن میں اپنا مشن مکمل کرکے کامیابی سے واپس آگیا۔
اسی شام آل انڈیاریڈیو کا کہنا تھا کہ پاکستان کے8سیبر جیٹس نے امرتسر پر راکٹ سے حملہ کیااوربمباری کی حالانکہ میں اکیلا گیا تھا،میرے پاس راکٹ بھی نہیں تھے،اس کے چند گھنٹے بعد F86 کے ایک سکواڈرن نے سجاد حیدر کی قیادت میں پٹھانکوٹ پرسرپرائز ریڈ کی،اس حملے میں بھارت کے کافی مِگ21 جہاز تباہ ہوئے اس سے بھارتی فضائیہ کا مورال نیچے اور ہمارا بلند ہوگیا، ایم ایم عالم نے ہلواڑہ جاکر بمباری کی،ایم ایم عالم کے واپس آنے پر سرفراز رفیقی،سیسل چودھری،انوارالحق ملک اور یونس نے حملہ کیا،انوارالحق ملک کا جہاز خراب نکلا،اس وقت بھارت کے کئی جہاز ہوا میں تھے اور ایک طرح سے بھڑوں کا چھتّہ تھاجسے شاہینوں نے چھیڑا تھا،ایم ایم عالم نے سرفراز رفیقی کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی،سرفراز رفیقی نے دُشمن کے دوتین جہازمار گرائے پھر ان کی گنز جام ہوگئیں تو انہوں نے سیسل چودھری کو ٹیک اوورکرنے کی ہدایت کی، سیسل نے ٹیک اوور کرلیا،اسی دوران دشمن کے طیاروں نے رفیقی صاحب کو شہید کردیا،اسی اثناء میں بھارتی فضائیہ نے سرگودھا پر بھی حملہ کردیا،اس وقت ایم ایم عالم اپنے نمبر2 اختر کے ساتھ فلائنگ کررہےتھے،میں بھی ایف104 میں بلندی پر تھا، سکواڈرن لیڈر عارف اقبال بھی ہوامیں تھے اور وہ ایم ایم عالم کے قدرے قریب تھے،جب دُشمن کے طیاروں کی پہلی لہر آئی تو ایم ایم عالم نے ان کا مقابلہ کیا،عارف اقبال بھی ان کے پیچھے تیار تھے میں بھی تیارتھا لیکن ایم ایم عالم نے ایسی پوزیشن لے رکھی تھی کہ صرف دومنٹ میں دُشمن کے پانچوں جہاز ان کی زد میں آگئے اور انہوں نے وہ تاریخ ساز کارنامہ انجام دے دیا جس پر نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ پوری قوم ہمیشہ فخر کرتی رہے گی،5طیاروں کی تباہی پر بھارتی ریڈیو سے مارے گئے لُٹ گئے کا واویلا شروع ہوگیا،دُشمن کے طیاروں کی دوسری لہر گھبرا گئی اور تیسری نے رُخ ہی موڑ لیا اس طرح سرگودھا پر دُشمن کا دباؤ کم ہوگیا۔
سوال:ایم ایم عالم کے کارنامے کو بطور پائلٹ کیسے دیکھتے ہیں؟
فاروق عمر:یہ ایک معجزہ تھا لیکن ایم ایم عالم نے خود کو اس کےلئے باقاعدہ تیار کیا ہوا تھا، وہ بہت زیادہ ٹریننگ کیا کرتےتھے اور ہر وقت فلائنگ پر ہوتے تھے جس پر لوگ انہیں کہتے تھے کہ تم بہت وہمی ہو لیکن وہ ان باتوں کو خاطر میں نہ لاتے اور کہتے ”بابا تم بے شک مت کرو لیکن میں تو ٹریننگ اس لئے کرتا ہوں کہ تھوڑے سے تھوڑے ایمونیشن اور کم سے کم وقت میں دشمن کے زیادہ سے زیادہ جہاز مارسکوں،اگر اللہ مجھے موقع دے تو،وہ الیون سکواڈرن میں تھے جو کراچی میں تھا لیکن اتفاق دیکھئے کہ جنگ کے وقت 11سکواڈرن سرگودھا آگیا،یہ بھی اتفاق ہے کہ جب دشمن کے طیاروں نے سرگودھاپر حملہ کیا تو ایم ایم عالم فلائنگ کررہے تھے،5 طیارے گرانے کا معجزہ ویسے ہی نہیں ہوگیاایم ایم عالم نے اس موقع پراپنی ٹریننگ کو استعمال کیا،انہوں نے کل 11 جہاز مارگرائے جس سے بھارت پر ہماری دھاک بیٹھ گئی،ہمارے سٹار فائٹرز سے تو وہ ویسے ہی ڈرتے تھے اس طرح اس جنگ میں ہمیں بھارت پر فضائی برتری حاصل ہوگئی جو ائیرمارشل نور خان چاہتے تھے۔
سوال:بھارتی جرنیل نے 65 ء کی جنگ میں ناشتہ لاہور جم خانہ میں کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اس وقت آپکا ردعمل کیا تھا؟
فاروق عمر:جنگ ستمبر کے ہر مشن میں ایک 104 سٹار فائٹر ضرور شامل ہوتا تھا،ہر مشن میں میں بھی بطور Escort شامل رہا،جب بھارت نے واہگہ کے راستے لاہور پر حملہ کیا تو پاک فوج نے قصور کے راستے بھارتی فوج کو پیچھے سے آرمرہُک لگانے کی کوشش کی اس طرح پاک فوج نے پیچھے سے آکر بھارتی فوج کو گھیر لیا اور اس کی پیش قدمی روک دی،لاہور پر حملے کو پاکستان ائیر فورس نے پسپا کیا،بھارتی طیارے جب راوی کے پل پر بم مارتے تو بھارتی پائلٹس کی بدحواسی کی وجہ سے بم وائیڈ آف ہوجاتے اور لوگ سمجھتے کہ فرشتے آکر بم کیچ کررہے ہیں۔
جنگ کے دوران لاہوریوں کا جذبہ بھی دیدنی تھا،جب بھارتی طیاروں کے بم نشانے پر خطا ہوتے تو لوگ تالیاں بجاتے تھے،اسی طرح جب پاک فوج کے بریگیڈ کمانڈر بی آر بی پر بھارتی حملے کو روکنے کے لئے گئے تو وہاں دیہاتی چار پائیوں، کھانے پینے کی چیزوں اور دیگر سامان کے ساتھ جمع تھے اور سب کچھ پاک فوج پر نچھاور کررہے تھے، اس وقت ایک روپیہ ایک ٹینک کی سکیم شروع ہوئی تو بھی قوم نے اس میں بھرپور حصّہ لیا۔
ملکہ ترنّم نور جہاں کے ترانوں نے بھی افواج پاکستان کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا،اس طرح پاکستان صرف ملٹری مشین نہیں بلکہ فائٹنگ مشین بن گیا ایسی قوم کے سامنے کون کھڑا ہوسکتا ہے،جب واہگہ کے محاذ پر دال نہ گلی تو بھارت نے وزیرآباد کے قریب پاکستان کی ریلوے لائن کاٹنے کا منصوبہ بنایا تاکہ پاک فوج کو رسد کی فراہمی رُک جائے وہاں بھی پاک فضائیہ نے بھرپور دفاع کیا،چونڈہ کے محاذ پر بھی پاک فضائیہ نے بری فوج کی بھرپور مدد کی،چونڈہ میں ہمارے فوجیوں کا جذبہ یہ تھا کہ وہ اپنے جسموں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور دشمن کاحملہ پسپا کردیا۔
ہم رات کو بھارتی کینبرا کا پیچھا کرتے تھے،ایک رات ایک بھارتی کینبرا ائیرچیف مارشل جمال کے قابو میں آگیا،میں بھی جمال کے پیچھے تھا، رات کو کینبرا کو گرانے کا سٹار فائٹر کا ریکارڈ آج تک دنیا میں کوئی نہیں توڑ سکا،جب سیز فائر ہوا تو پاکستان کا پلہ بھاری تھا۔قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو میں ایئرمارشل نورخان کا دوبارہ اے ڈی سی بن چکا تھا،بھارتی ایئر چیف مارشل ارجن سنگھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے پشاور آئے تھے نور خان دہلی نہیں گئے جواس بات کا ثبوت ہے کہ جنگ میں پاکستان کا پلہ بھاری رہا تھا،اس جنگ کے بعد پاک فضائیہ کی دھاک بیٹھ گئی تو مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اپنے پائلٹس کی تربیّت کے لئے پاکستانی پائلٹس کو بلوانا شروع کر دیا۔
سوال:جنگِ ستمبر میں جذبے کے ساتھ ساتھ ٹریننگ نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا؟
فاروق عمر:بالکل،بھارتی فضائیہ پاکستانی فضائیہ سے پانچ گنا بڑی ہے اس کے پاس ریزرو فضائی ہتھیار بھی پانچ گنا زیادہ ہیں لیکن پاکستان پائلٹس اس جنگ میں بھارت سے زیادہ تربیت یافتہ تھے جس کاسہرا ایئرمارشل اصغر خان کے سر ہے کیونکہ انہوں نے پاکستانی پائلٹس کو اس طرح تربیت دی کہ وہ اسرائیلی پائلٹس کو بھی پیچھے چھوڑ گئے جو دُنیا میں بہترین پائلٹ سمجھے جاتے تھے،پاکستان کے پاس اس جنگ میں جہاز اچھّے نہ بھی ہوتے تو بھی ہمارے پائلٹس بہترین نتائج دکھاتے،آج ہم جے ایف تھنڈر 17 اور قراقرم 8 جہاز بھی بنا چکے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل ہے، اگرچہ بھارت کے پاس پانچ گناہ زیادہ جہاز اور افرادی قوّت ہے لیکن آپریشنل ایئر بیسز دونوں مُلکوں کے پاس 23,23 ہی ہیں،23 بیسز پر بھارت اپنی پوری فضائیہ تو لا نہیں سکتا، جے ایف 17 تھنڈر ایف سولہ جہازوں کا متبادل بلکہ بہت سستا متبادل ہیں۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موٹو رہا ہے کہ offence is the best defence، ہم بھارت کے تمام ایئر بیسز تک جا سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہاں ہِٹ بھی کر سکتے ہیں۔
سوال: کئی عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ جنگ ستمبر مزید ایک دو روز جاری رہتی تو پاکستان کی ہار یقینی تھی؟
فاروق عمر: میں اس سے متفق نہیں ہوں،ہمارے پاس ایف 86 کے کم ازکم چھ ماہ تک کے سپیئرز تھے اور ہم لڑ سکتے تھے،دشمن نے ہماری ریلوے لائن کو بھی71ء کی طرح نقصان نہیں پہنچایا تھا،اس طرح ہمیں تیل وغیرہ کی رسد کا بھی مسئلہ نہیں تھا،بھارت خود بھی جنگ سے نڈھال ہو چکا تھااس نے مغل پورہ پر حملہ بھی کیا تھا، ہم نے اس کی ریلوے پر حملہ نہیں کیا لیکن اگر جنگ مزید جاری رہتی تو پھر ہم بھی ضرور حملہ کرتے۔
سوال:جے ایف تھنڈر کے بعد ہم بھارت کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟
فاروق عمر:جہاں 1965ء میں کھڑے تھے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے،اب دشمن پاکستان کو اندرونی طور پرکھوکھلا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوال: جنگ کے دوران آپ لوگوں کی کیا کیفیّت تھی؟
فاروق عمر:ہم پہلے 72 گھنٹے تو سوئے ہی نہیں تھے زیادہ ترمشنز پر ہی ہوتے تھے۔
سوال: ایم ایم عالم کے ساتھ آپ نے کافی وقت گزارا، بطور انسان انہیں کیسا پایا؟
فاروق عمر:میرا ایم ایم عالم سے تعلّق 1960ء سے تھاوہ اس وقت فلائٹ لیفٹیننٹ تھے اور میں پائلٹ آفیسر تھا،ان کے ایک ساتھی حمید انور تھے اوریہ دونوں ہر وقت مشق کرتے رہتے تھے، یہ زمین پر بھی ہر وقت فلائنگ کی باتیں کرتے رہتے تھے، ہاتھوں سے یہ ایئر کمبیٹ کرتے رہتے تھے،ایم ایم عالم جب گھر جاتے تو اپنا سیمولیٹر گھر لے جاتے اور زاویے دیکھتے رہتے کہ بھارتی طیارہ اگر اس زاویے سے آئے تو مجھے کیا کرنا چاہئے اور اگر اس طرف سے آئے تو مجھے کیا کرنا چاہئے،وہ اس قدر پروفیشنل تھے کہ اپنی گنز بھی جہاز میں خود فٹ کرتے تھے تاکہ وہ ایک ہی جگہ نشانہ لگائیں اس لئے جہاں ان کا نشانہ ہوتا گولیاں وہاں ہی جاتی تھیں،مشق،ایمان اور پرفیکشن نے ان میں خوداعتمادی پیدا کی،انہوں نے آگے لوگوں کو بھی سکھایا، ان کا سکھایا ہوا حمید انور جب اُردن گیا تو وہاں اس نے اُردن کی فضائیہ کو طاقتور بنا دیا،میں ایم ایم عالم کے ساتھ فرانس بھی میراجز کی ٹریننگ کے لئے گیا تھا،فرانس میں ایک دن ہماری ٹریننگ ہو رہی تھی وہاں ہمیں پتہ چلا کہ اسرائیلی پائلٹس بھی موجود ہیں،جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو اسرائیلی پائلٹس کا پہلا سوال یہ تھا ”آپ میں سے عالم کون ہے؟“ جب ہم نے عالم کی طرف اشارہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے عالم کو اٹھالیا کہ اسرائیلی فضائیہ عالم کی بہت عزّت کرتی ہے،ایم ایم عالم واقعی ایک لیجنڈ تھے۔
ان دنوں رمضان شریف تھا اور ہم ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے،ایک رات اسرائیلی پائلٹس نے ہوٹل انتظامیہ کو شکایت کی کہ پاکستانی ہمیں سونے نہیں دیتے،یہ رات کو اُٹھ کر گانے گاتے ہیں،ہم نے ایک دوسرے سے پوچھا تو پتہ چلا کہ عالم تہجّد کے وقت بلند آواز میں تلاوت کرتے ہیں جسے وہ عقل کے اندھے گانا کہہ رہے تھے،عالم کو کوئی دُنیاوی لالچ نہیں تھایہی وجہ ہے کہ ساری زندگی انہوں نے گھر بنایا نہ گاڑی لی بینک بیلنس بھی نہیں تھا،ان کے کمرے میں کتابوں کا انبار تھا اور وہ ہر وقت کتابوں میں ہی کھوئے رہتے تھے۔
سوال:سٹارفائٹرکیساجہاز تھا؟
فاروق عمر:سٹارفائٹر جب ٹیک آف کرنے لگتا اور انجن کھولتا تو زمین تھرتھراتی،اردگرد کے گاؤں کے بچے رونا شروع کر دیتے پھر جب ٹیک آف کے لیے رن کرتا تو گولی کی طرح جاتا اور راکٹ کی طرح چلتا،دو منٹ کے اندر اندر40 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاتا،اس کے اندر نصب ریڈار25 میل دور تک دیکھ سکتاتھا، بھارتی جہاز ہمارے سٹار فائٹرز کا نام سُن کر ہی تتر بتر ہو جاتے تھے، وہ F-86 کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے جو ان کو مارتا تھا۔
سوال: اگر بھارت کے ساتھ جنگ ہوجاتی ہے تو ہمارا وار سٹیمنا کتنا ہے؟
فاروق عمر:کمبیٹ سٹیمنا بنیادی طور پر نیشنل سٹیمنا ہوتا ہے،جنگ صرف ایئرفورس، نیوی یا بری فوج نے ہی تو نہیں لڑنی بلکہ پوری قوم نے لڑنی ہوتی ہے،دیکھنا ہوتا ہے کہ ملک کس قابل ہے،اس کی معیشت کیسی ہے، ایندھن کتنا ہے،سامان رسد اور ایمونیشن کتنا ہے؟اگر باہر سے منگوانا ہے تو روٹس کُھلے ہونے چاہئیں،آرمڈ فورسز تو ایک مکاہیں،اِدھر سے مارا اوراُدھر سے،ہمارا جسم ہمارا ملک ہے اس کی طاقت دیکھی جاتی ہے۔
سوال: جے ایف 17 ایف 16 کا متبادل ہو سکتا ہے؟
فاروق عمر: ایف 16 الٹی میٹ فائٹر ہے لیکن جے ایف 17بھی ایک بہترین جہاز ہے جس کی قیمت بھی ایف 16 کے مقابلے میں کم ہے اورہم خود اسے مینوفیکچر کررہے ہیں اوراگر جنگ میں اسے نقصان بھی پہنچے توہم اسے ریپیئر بھی کر سکتے ہیں،اس پرSanctions بھی نہیں لگ سکتیں۔
سوال: زندگی کاکوئی ناقابل فراموش واقعہ؟
فاروق عمر:میری زندگی کے ناقابل فراموش واقعات توبہت ہیں،پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل نورخان کے حکم پرپہلے ہی دن میں نے امرتسر پرلولیول سونک بوم کیاجس سے انڈین میں دہشت اورہیبت طاری ہوگئی،دوسرا واقعہ 1971ء کی جنگ میں میراج ایئرکرافٹ پر پٹھانکوٹ کے اوپر سونک بوم کرنا ایک ہزار تصاویر کھینچنا جبکہ دوسوGUNSمجھے مارنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن میں نے ہٹ ہونے کے باوجود اپنامشن مکمل کیاجوپاکستان ایئرفورس کےلئے بہت اہم تھا،تیسرا واقعہ عرب اسرائیل جنگ سے پہلے ہم نے لیبیاکی ایئرفورس قائم کرکے میراجز کوآپریشنل کیا،مصری پائلٹس کوٹریننگ دی،حسنی مبارک اورانورسادات کی فوجوں کی مدد کرواتے ہوئے نہرسویز پرعربوں کاقبضہ یقینی بنوایا اورمالی فوائد سے ہمکنار کیا،یہ سب paf پائلٹس کی ٹریننگ سے ہوا۔