سندھی نوجوان نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے موہن جودڑو کی ’اصل‘ جیسی تصاویر تیار کر لیں

موہن جو دڑو، جس کا سندھی زبان میں مطلب ’مردوں کا ٹیلہ‘ ہے، ایک زمانے میں پھلنے پھولنے والی وادی سندھ کی تہذیب (جسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے) کا سب سے بڑا شہر تھا۔

Apr 06, 2023 | 15:21:PM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز) ضلع بدین کے شہر پنگریو سے تعلق رکھنے والےنوجوان اختر علی شاہ کی جانب سے اے آئی کی مدد سے  قدیم تہذیب موہن جو دڑو کو ایک ہرا بھرا ہنستا بستا اور ایک زندہ شہر کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی موہنجو دڑو کی تہذیب کوبہتر تصویری رنگوں میں لوگوں کیلئے پیش کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔

اختر علی کی ان تصاویر میں لوگ فصل کاٹتے بیل گاڑیوں کا استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات میں موجود ہیں،لوگوں کو دریا کے کنارے دکھایا گیا ہے تو کچھ تصاویر میں لوگوں کو  بازاروں میں خرید و فروخت کرتےدکھایا گیا ہے۔

موہن جو دڑو، جس کا سندھی زبان میں مطلب ’مردوں کا ٹیلہ‘ ہے، ایک زمانے میں پھلنے پھولنے والی وادی سندھ کی تہذیب (جسے ہڑپہ کی تہذیب بھی کہا جاتا ہے) کا سب سے بڑا شہر تھا جس نے کانسی کے دور میں شمال مشرقی افغانستان سے شمال مغربی ہندوستان تک اپنا عروج دیکھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ موہن جو دڑو میں کم از کم 40,000 لوگ آباد تھے، اس شہر نے 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح تک ترقی کی۔

یہ ایک شہری مرکز تھا جس کے سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور مذہبی روابط میسوپوٹیمیا اور مصر کے ساتھ تھے لیکن قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے شہروں کے مقابلے میں انھوں نے ایک ہی وقت میں ترقی کی تھی۔

اینٹوں کے بنے ہوئے فٹ پاتھ شہر کے اونچے حصے کی جانب لے جاتے ہیں، جو موہن جو دڑو کے 300 ایکٹر سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے اور اس میں کسی زمانے میں شہر کے خوشحال محلے آباد تھے۔

اس شہر کی کامیابی کا اصل راز اس شہر کی اعلیٰ معیار کی تنظیم تھا۔ درجنوں تنگ سڑکیں منصوبہ بند گلیوں کے جال میں 90 ڈگری کے زاویوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہیں۔ مقامی گھروں کے دروازے، بشمول غسل خانوں میں، دہلیز کا استعمال اس کے برعکس نہیں جو آپ کو آج بھی کسی گھر یا عمارت میں ملے گا۔

پیرہن:

موہن جودڑو میں رہنے والے،مردوں کا لباس دھوتی اور چادر تھا۔ وہ چادر کو دائیں بازو بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں کاندھے پر ڈال کر پہنا کرتے تھے۔ اس کے کھنڈرات سے برآمد ہونے والےکچھ مجسموں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مردوں نے دھوتی کے بجائے ایک ایسی کھگھری پہنی ہوئی ہے جیسے آج کل شہنائی والے (ڈھول بجانے والے) پہنا کرتے ہیں۔ کچھ مجسمے بالکل برہنہ ہیں اور کچھ میں لنگوٹ پہنے ہوئے نظر آتے ہیں۔

زیورات:

موہن جو دڑو والےعہد میں مرد و خواتین عام طور سے زیورات پہنا کرتے تھے۔ عورتیں منکوں کے ہار، چاندی یا سونے کی چوڑیاں اور پازیب پہنا کرتی تھیں۔ کچھ مجسموں میں عورتوں کو کہنی سے لے کر کندھے تک چوڑیاں پہنے دکھایا گیاہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں بھی چوڑیوں کا رواج عام تھا، کچھ زیورات پر جڑاؤ کا کام بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ اس دور میں سنار بھی ہوا کرتے تھے۔

کھیتی باڑی، دیگر ہنر:

وادی مہران کی قدیم تہذیب میں کاشت کاری اور زراعت سے متعلق اتنی زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوئی ہیں، تاہم موہن جو دڑو سے گندم اور جو کے دانےملے ہیں۔ اگر چہ تلوں کا ایک دانہ بھی وہاں سے نہیں ملالیکن لگتا ہے کہ وہاں تلوں کی فصل بھی ہوا کرتی تھی کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قدیم دور میں پنجاب اور سندھ میں تلوں اور جو کی فصلیں بہت ہی اچھی ہوتی تھیں۔ اس وقت اناج پیسنے کیلئے جو چکیاں استعمال کی جاتی تھیں وہ آج کے دور سے خاصی مختلف ہیں۔ پہلے ان چکیوں کے نمونے بھی مختلف ہوا کرتے تھے۔ وہ چکیاں موہن جو دڑو سے بڑی تعداد میں ملی ہیں۔

خوراک:

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ موہن جو دڑو کے لوگ گندم اور جو کے علاوہ کھجور بھی بہت کھاتے تھے۔ کھجوروں کی گٹھلیاں کھدائی کے دوران ملی ہیں۔ اسی وقت لوگ مچھلی بلکہ بڑا گوشت بھی کھاتے تھے۔ دریا کی مچھلی کےتو شوقین تھے ہی لیکن کچھوے کو بھی بطور خوراک استعمال کرتے تھے۔

دھات:

پتھر کے دور کے انسانوں کی طرح موہن جو دڑو کے باشندے بھی پتھر کے اوزار اور برتن استعمال کرتے تھے لیکن تانبے کا بھی ان کو علم تھا جس سے وہ برتن اوزار بلکہ زیور بھی بناتے تھے اور لوہے کا تو ایک ذرہ بھی ہاتھ نہیں آیالیکن یہ زمانہ ہی ایسا تھا جس میں لوگوں کو لوسے کام لینےکی عقل ابھی نہیں آئی تھی۔ قلعی بھی الگ سے نہیں ملی۔ لیکن فقط تانبے کے ساتھ استعمال شدہ ملی ہے۔موہن جو دڑو کے لوگ تانبہ اور قلعی ملا کر ’برانز‘ بناتے تھے۔ اس سے بھی اوزار اور برتن بنائے جاتے تھے۔

ذرائع آمد و رفت:
ذرائع آمد و رفت میں ایک بہت بڑا ذریعہ تو دریا اور کشتیاں تھیں۔ اس کے علاوہ بیل گاڑیاں اور گھوڑا میدانی علاقوں میں، پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں اونٹ استعمال ہوتا تھا۔ غالباً سب سے بڑا ذریعہ بیل گاڑی تھی۔ جس کے  پیہے ٹھوس ہوتے تھے اور اس کا قطر تین فٹ چھ انچ ہوتا تھا۔

اندرون ملک تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ دریائی کشتیاں تھیں یا بیل گاڑیاں۔ تھورا بہت ثبوت اونٹ استعمال کرنے کا ملا ہے۔ موہن جودڑو میں ایک اونٹ کا ڈھانچہ پندرہ فٹ گہرائی میں مدفون ملا ہے۔ گدھے اور خچر کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ البتہ موہن جو دڑو سے ایک گھوڑے کا ڈھانچہ ملا ہے جو اس تہذیب کے زمانہ عروج کے بعد کا ہے۔ ان کے برعکس جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ بیل کی بے شمار تصویریں، مجسمے اور بیل گاڑیوں کے سفالی اور تانبے کے ماڈل ہیں۔ لہذا یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ تجارت کشتیوں اور بیل گاڑیوں پر ہوتی ہوگی۔ اس کے علاوہ سامان ڈھنونے والے مزدور یا غلاموں کا ثبوت شاہراؤں کے قریب بنے چند فٹ اونچے ستون، پتھر کے ڈھیروں اور چھجوں سے دیا جاسکتا ہے۔ جو سر سے گٹھڑی اتارنے کے کام آتے ہوں گے۔

ایسی بڑی تفصیل جو اس قدیم شہر کے بایسوں کی زندگیوں اور اُن کے ادوار کے بارے میں پتا چل سکے وہ تاحال ابھی بھی ایک راز ہے۔   

موہن جو دڑو کا انجام کیا ہوا یہ ایک اور معمہ ہے جو ابھی حل ہونا باقی ہے۔

مجموعی طور پر محققین کو یقین نہیں ہے کہ یہ شہر 1700 قبل مسیح کے آس پاس کیوں ختم ہو گیا یا اسے خالی کر دیا گیا حالانکہ بڑے پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کے عوامل نے اس کی بربادی میں ایک کردار ادا کیا ہو گا۔ اس کے باوجود وضاحت کی گئی ہے کہ موہن جو دڑو کا غائب ہونا کوئی فوری واقعہ نہیں تھا۔

 کہا گیا ہے کہ ’شہر خود اچانک خالی نہیں ہوا تھا۔ 1900 قبل مسیح کے آس پاس آپ دیکھتے ہیں کہ ایک تبدیلی ہوتی ہے، شہر میں رہنے والے لوگوں کے نشانات مادی صورت میں کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سب چلے گئے ہیں لیکن کچھ محلے ایسے ہیں جو آپ شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد کے ادوار میں آبادی کی تعداد پہلے کے ادوار کی طرح نہیں رہتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی شہر چھوڑنے کی رفتار سست ہے۔‘