عمران خان کو ’ارینج میرج‘مہنگی پڑی
Stay tuned with 24 News HD Android App
زمانے کی اپنی چال ہے اور چال کی چاپ وہی سُنائی دیتی ہے جن پیروں میں جان ہو اور جان بھی ایسی کہ نشان باقی رہیں۔ افسانے حقیقت بنیں گے اور خواب سے پہلے تعبیر ہو گی، شعر میں لفظوں کی جگہ اعداد بولیں گے،عوام اٹھیں گے گریبان پکڑیں گے اور کہیں گے ’ساڈا حق ایتھے رکھ‘۔گھر گھر میں یہ بحث ہے کہ کماتے ہم ہیں تو کھاتے کوئی اور ہیں۔جو کماتے ہیں وہ کسمپرسی میں زندگی گزارتے ہیں اور جو کھاتے ہیں وہ پرتعیش اور رنگین محفلیں سجاتے ہیں ۔
اٹک کا قیدی وہ کرگیا ہے جو کوئی پہلےنہ کرسکا ،اس نے قوم کو بیدار کردیا ،اب کوئی گھنگرو پہن کر کسی کے اشارے پر نہیں ناچے گا،وہ بولے جارہا تھا اور ہم چپ سادھے ہمہ تن گوش تھے ۔یہ بات 5 اگست سے پہلے کی تھی ۔میں بھی انتظار میں تھا کہ اس کی باتیں سچ ثابت ہوں،کیا اس کی باتوں میں حقیقت تھی؟
ضرور پڑھیں:اگلے وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے؟
نہیں ۔پھر اچانک پانچ اگست کی صبح توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آتا ہے،عمران خان جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور تین سال قید اور نااہلی کی سزا پاتے ہیں،پہلے سے تیار پولیس زمان پارک پر عقابوں کی طرح جھپٹتی اور عمران خان کو اچک کر لے جاتی ہے،سوال یہ ہے کہ وہ ہجوم کہاں تھا ؟وہ ہجوم جو خان کے ہرجلسے میں ایک ایک لفظ پر جان لٹانے کو تیار ہوتا تھا،سوشل میڈیاپرجو آگ لگائے رکھتا تھا،وہ ہجوم جس نے پہلی گرفتاری پر فوجی چھاؤنیوں کا رخ کیا،قومی املاک کو جلایا،شہدا کے مجسموں کی توہین کی،بابائے قوم کے گھر تک کو نہ بخشا ،غالباً سب پر سکوت چھا گیا ہے،سب خوفزدہ ہوگئے ہیں یا پھر سب کچھ جھوٹ تھا ؟سب مصنوعی تھا؟وہ جلسوں کے ہجوم بھی مصنوعی تھے؟کیا سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟عمران خان جب طاقت میں تھے تو انہوں نے بھی ایسا کیا ،اب ان کے ساتھ بھی ویسا ہورہا ہے۔یہ دنیا مکافات عمل ہے۔
جب وہ اقتدار میں تھے تو انہوں نے پورے قد سے کھڑے لوگوں کی ٹانگیں کاٹ دیں،ان کے دور میں دماغ اور ذہن رکھنے والے لمبی زبانوں اور چھوٹے دماغوں کے سامنے کم حیثیت ہوئے۔ جن کی پَگ تھی اُن کے سر کنٹوپ اور جن کے سر تھے اُن کو رسوائی دی گئی۔سیاست اور صحافت سر بازار رسوا ہوئے،سماج میں تقسیم در تقسیم کرکے نفرت کی بارودی سُرنگیں بچھا دی گئیں۔
پھر کیا ہوا ہائبرڈ دور تاریک ٹھہرا، تبدیلی پراجیکٹ لانے والے ہاتھ ملنے لگے، پچھتاوے طاری ہوئے اور خدشے حاوی۔ اسٹیبلشمنٹ پہلو سے لگی بیٹھی رہی اور پھر دامن چھڑانے میں مصروف۔اس سارے لٹا،پٹا تو ٹیکس دینے والا ایک کارکن ۔
یہ بھی پڑھیں:اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا اپنی اسٹیبلشمنٹ
جب خان صاحب کو کم نشستوں کے باوجود اقتدار میں لانے کی کوشش کی جارہی تھی تو میں نے برطانوی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ یہ کپتان کی ریاست کے ساتھ ’ارینج میرج‘ ہے،ریاست کو اس کیلئے کیا کیا جتن کرنے پڑے۔یہ ارینج میرج خان صاحب کیلئے بہت مہنگی ثابت ہوئی ہے۔اگر وہ یہ نہ کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے ۔
بات ٹینشن سے ایکسٹینشن تک پہنچی تو شادی کرانے والوں نے ایکسٹینشن لے لی ، جب یہ معاملہ بخوبی سرانجام پاگیا تو پھر ایکسٹینشن والوں نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ سر سے کھینچنا شروع کردیا ،جب یہ ہاتھ نہ رہا تو یہ ’ارینج میرج‘ ٹوٹ گئی ۔اس ’طلاق‘کے صرف ڈیڑھ سال بعد کپتان ایسے الجھے کہ سلجھ نہ پائے اور ان کی پارٹی پارہ پارہ ہوگئی اور خود اسیر بن کرزندان میں پہنچ گئے۔اب آگے کیا ہوگا؟وہ سلجھ کر نکلیں گے یا اسی اسی طرح الجھے ہوئے آئیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔
ضروری نوٹ:ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر