(24 نیوز)بنگلادیش میں خونی انقلاب نے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کا سورج غروب کردیا ہے۔عوامی دباؤ کےآگے شیخ حسینہ واجد کو سر جھکنا ہی پڑا۔اوراُن کو اپنے عہدے سے برطرف ہونا ہی پڑا۔درحقیقت بنگلادیشی عوام حکومت کی پالیسیویں سے نالاں تھی ۔معاشی نا انصافی عروج پر تھی۔بدعنوانی اپنی حدوں کو چھو رہی تھی۔۔پھر اِس کے علاوہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو آمریت سے بھی تشبیح دی جاتی تھی کیونکہ اُنہوں نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔بنگلادیش میں حالیہ عام انتخابات کے وقت شیخ حسینہ واجد نے اپنے مخالفین کو زیر عتاب رکھا۔۔اُنہیں سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں 80 سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین کی ہے وہ لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں ۔یہشیخ حسینہ واجد کی آمرانہ طرز سیاست ہی تھے جن کی وجہ سے اِن کیخلاف عوام میں آہستہ آہستہ غم و غصہ بڑھنے لگا ۔اور رہی سہی کمی کوٹہ سسٹم نے پوری کردی۔اور یہی وجہ ہے کہ عوام شیخ حسینہ واجد کی رہائش گاہ میں داخل ہوگئے۔جس معاشرے میں معاشی نا انصافی ہو تو وہاں ایسے انقلاب برپا ہوتے ہیں جیسا کہ بنگلادیش میں ہوا۔اور سب سے بڑی غلطی شیخ حسینہ واجد کی حکومت سے جو ہوئی وہ یہ تھی کہ اُس نے طاقت کے زور پر عوامی احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی۔شیخ حسینہ واجد نے کوٹہ سستم کیخلاف احتجاج کرنے والوں کو غدار کہا۔مظاہرین کو دہشتگرد کہا۔جواب میں مظاہرین کا رد عمل فطری تھا جنہوں نے شیخ حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کیا۔اور یہ دباؤ وقت کے ساتھ ساتھ اِتنا بڑھ گیا کہ شیخ حسینہ واجد عوامی غضب کے آگے بے بس اور لاچار نظر آنے لگی ۔بنگلادیشی حکومت کے غرور نے خونی فساد برپا کیا ۔جولائی میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک میں اب تک مجموعی طور پر 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔شیخ حسینہ واجد نے کوٹہ سسٹم میں بھی نا انصافی کے اصولوں کو اپنائےرکھا۔ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ80 لاکھ بنگلہ دیشی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ کم تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔بنگلہ دیش تیار شدہ کپڑوں کی برآمدات کا پاور ہاؤس بن گیا ہے۔ یہ ملک عالمی منڈی میں تقریباً 40 ارب ڈالر مالیت کے کپڑے برآمد کرتا ہے۔
اس شعبے میں 40 لاکھ سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔ لیکن پڑھی لکھی نوجوان نسل کے لیے فیکٹریوں کی یہ نوکریاں کافی نہیں ہیں۔اوپر سے بنگلادیش میں سرکاری ملازمتوں کے حوالے سے کوٹہ سسٹم نافذ تھا جس کے تحت 56 فیصد نوکریاں تقسیم کی جاتی ہیں، جس کے تحت 1971 کی جنگ میں حصہ لینے والوں کے بچوں کو 30 فیصد، خواتین اور مخصوص اضلاع کیلیے 10 ، 10 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا جاتا ہے۔اور یہی وجہ تھی کہ بنگلادیشی طلبا اِس کوٹہ سسٹم کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن شیخ حسینہ واجد نے طاقت کے زور پر اُنہیں دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔شیخ حسینہ واجد پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے قریبی لوگوں کو ہی نوازا ۔شیخ حسینہ 2009 سے سٹریٹجک طور پر واقع جنوبی ایشیائی ملک پر حکومت کر رہی تھیں۔ وہ جنوری میں ہونے والے 12ویں عام انتخابات میں مسلسل چوتھی بار اور مجموعی طور پر پانچویں مدت کے لیے منتخب ہوئیں۔۔اب 20 سال کے اقتدار میں شیخ حسینہ واجد نے طاقت کے زور پر عوام کو دبانے کی کوشش کی جس کا رد عمل یہ نکلا کہ آج شیخ حسینہ واجد کو فرار ہوکر بھارت روانہ ہونا پڑا۔اہم اور دلچسپ بات یہ تھی کہ بنگلادیش کی فوج نے عوام کا ساتھ دیا ۔اور بنگلادیشی فوج نے شیخ حسینہ واجد کو حکومت چھوڑنے کیلئے 45 منٹ کا الٹی میٹم دیا۔اگر یوں کہا جائے کہ شیخ حسینہ واجد کی مخالفت میں ہواؤں کا رخ ہر سمت میں چلنا شروع ہوگیا تھا تو یہ غلط نہیں ہے۔اب بنگلادیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزماں نے شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے بعد ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ضرور
اب بنگلادیش میں کرفیو نافذ ہے اور یہاں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے گا جس کے بعد عام انتخابات کرواکر نئی منتخب حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا،بہرحال بنگلادیشی عوام آج بہت خوش نظر آرہے ہوں گے۔یقینی طور پر یہ بنگلادیشی عوام کی فتح ہے ۔ملک میں حالیہ پُرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ان کے استعفے کے مطالبات کیے جاتے رہے لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی،اب شیخ حسینہ واجد کے بھارت جانے پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔مستعفی وزیراعظم نے بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی کو ہمیشہ اپنا دوست کہا اور برملا اعتراف کیا کہ بھارت کی مدد سے 1971 میں پاکستان کو دولخت کر کے بنگلہ دیش کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔اس کے علاوہ بھی ان کے کئی اقدامات کو بنگلہ دیشی عوام بھارت نواز سمجھتے تھے اور اُنہیں پذیرائی نہیں ملتی تھی۔شیخ حسینہ واجد کے دور میں جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کو پھانسی کی سزا دی گئی اور اس پر عملدرآمد بھی کرایا گیا جبکہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی بھی عائد کر دی گئی تھی۔صرف یہی نہیں بنگلادشی کی سابقہ وزیراعظم نے پاکستان سے ہر طرح کے روابط بنی بند کردیے تھے۔لیکن قسمت کا کھیل دیکھئے کہ بھارت نواز ہونا بھی شیخ حسینہ واجد کےا قتدار کو نہ بچا سکا۔