(ویب ڈیسک )تہران میں حماس رہنما کی ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے ایران نے میزائل لانچروں کی منتقلی شروع کر دی ہے ۔
امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ کے مطابق ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ ایران آئندہ چند دنوں میں حملے کی تیاری کر رہا ہے،دوسری جانب بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر ایران کے کسی بھی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ تاہم اسے ان کوششوں میں نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے راکٹ لانچروں کو حرکت میں لانا شروع کر دیا ہے اور فوجی مشقیں بھی کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ تہران آنے والے دنوں میں اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسری جانب روس نے بھی ایران کو ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردی ہے۔
ایران عندیہ دے چکا ہے کہ وہ اسرائیل کو تہران میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا جواب دینے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس بات نے بائیڈن انتظامیہ کے ذمہ داران کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے،ان کے نزدیک اس مرتبہ ایرانی حملہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ اور تہران کے دیگر ایجنٹوں کی یلغار کے ملاپ سے ہو سکتا ہے،خطے میں وسیع جنگ چھڑنے سے غزہ میں فائر بندی کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی اُن کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے جو پہلے ہی تعطل کا شکار ہیں،وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کو خطے کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔
اس موقع پر دونوں شخصیات کو بتایا گیا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ ایران اور حزب اللہ اسرائیل پر حملے کو کب ترجیح دیں گے اور ممکنہ حملے کی تفصیلات بھی سامنے نہیں آئی ہیں ، اس دوران روس اپنے اتحادی ایران کو ہتھیاروں کی سپلائی بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے اور اسے جدید ترین روسی ہتھیار فراہم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق منگل کو ایرانی حکام نے بتایا ہے کہ تہران نے ماسکو سے جدید فضائی دفاعی نظام کی درخواست کی تھی۔ روس نے ہمیں ریڈار اور فضائی دفاعی سازوسامان فراہم کرنا شروع کر دیا ہے۔
اسرائیلی اخبار ”معاریف“ نے رپورٹ کیا ہے کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کئی روسی ”76-II“ طرز کے ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے تہران اترے ہیں,قبل ازیں پیر کو روسی سلامتی کونسل کے سکیرٹری سرگئی شوئیگو سینئر ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے تہران پہنچے تھے,یہ دورہ ایران کے دارالحکومت تہران میں چند روز قبل حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے تناظر میں اہم سمجھا جارہا ہے۔