(ویب ڈیسک) تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 30 برس مکمل ہوگئے۔ اس سانحے پر امت مسلمہ کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔
بھارت کے شہر ایودھیا میں 30 برس قبل 1992ء کو 6 دسمبر کے ہی دن ہزاروں انتہا پسند ہندوؤں نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا جس کے بعد بھارت میں بدترین ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق بھی ہوئے۔
بابری مسجد سولہویں صدی کا ایک عظیم شاہکار تھا۔ 1528ء کو انتہا پسند ہندوؤں نے شوشہ چھوڑا کہ بابری مسجد دراصل رام کی جنم بھومی کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی تھی۔ 1949ء میں بابری مسجد کو متنازع قرار دے کر بند کروا دیا گیا جس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین یہ مسجد متنازع ہی رہی اور بالآخر 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں انتہا پسند ہندوؤں نے عظیم ثقافتی ورثے بابری مسجد کو شہید کردیا جس کے بعد بھارت میں تاریخ کے بدترین فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں تین ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو ئے۔
اس حوالے سے دنیا بھر میں بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی پر بات کرنے والے افراد کی جانب سے ردعمل کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔
انسانی حقوق اور معاشرتی رواداری پر بات کرنے والے مشہور بھارتی ماہر تعلیم اشوک سوائن نے اس حوالے سے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ آج سے 30 برس پہلے بابری مسجد کے واقعے کے بعد بھارت اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست کہنے کا حق کھو چکا ہے۔
ایک اور ٹویٹر صارف نے اپنے ٹویٹ میں بھارتی مسلم رہنما اسدالدین اویسی کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بابری مسجد کو کبھی نہیں بھولا جائے گا۔
انڈین امریکی مسلم کونسل نامی تنظیم کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا کہ 6 دسمبر آزاد بھارت کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے۔
اس کے علاوہ ایک اسکالر کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا کہ بھارتی ورثے کا ایک بیش قیمت حصہ، روایت شکن ہندو قوم پرستوں کے گروہ کی جانب سے تباہ کردیا گیا۔