معاشی اور انتظامی حوالے سے حکومت کی کامیابیوں کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پاکستان ریلوے کی آمدن تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، پاکستان ریلوے نے مالی سال 2023-24 کے چارٹ کی مطابق 88 ارب کا منافع کمایا جو تاریخ کا سب سے زیادہ منافع ہے، 47 ارب مسافر ٹرینوں سے، 28 ارب مال گاڑیوں سے اور 13 ارب دیگر شعبہ جات سے یہ منافع حاصل ہوا، ان بڑی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ حکومت فروری 2025ء میں گرین لائن جیسی ایک اور بہترین ٹرین چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم جس تندہی سے ملکی معیشت کی رکی ہوئی ٹرین کو چلانے میں کامیاب ہوئی ہے اس سے یہ امید بندھ چلی ہے کہ موجودہ حکومت کے 5 سال مکمل ہونے پر انشاءاللہ ملکی معیشت کی گاڑی شہباز سپیڈ پکڑ چکی ہو گی، وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم نے یہ کامیابی ملک میں سیاسی حوالے سے مسلسل عدم استحکام اور اپوزیشن کے مستقبل منفی طرز عمل کے باوجود حاصل کی ہے۔ اگر اپوزیشن تھوڑی سی بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرتی تو معاشی کامیابیوں کی یہ رفتار اس سے بھی کہیں زیادہ تیز ہوتی۔
حکومت کی جانب سے مالیاتی اصلاحات، بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا، اور تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کوششیں طویل المدتی معاشی استحکام لانے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں،سٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی کی وجہ سے 100 انڈیکس بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، سٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی کا رجحان ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں تیزی اور اقتصادی اشاریوں میں بہتری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس کی بلند ترین سطح پر پہنچنا اس بات کا بھی مظہر ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ حکومت کا توانائی کے منصوبوں پر توجہ دینا، زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، اور کاروباری آسانیوں کے لیے قوانین میں نرمی نے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا ہے۔ اگر یہی رفتار برقرار رہی اور جامع منصوبہ بندی جاری رہی تو پاکستان جلد ایک مستحکم اور خوشحال معیشت بن کر ابھرے گا۔
پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں ترجیحات کچھ اور رہیں جس کی وجہ سے طویل المدتی معاشی استحکام کا سفر متاثر ہوا، سابق وزیراعظم عمران خان اپنی معاشی ناکامیوں کا ملبہ کووڈ بحران پر ڈالتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی حکومت سیاسی مخالفین کیخلاف انتقامی کارروائیوں کی دلدل میں نہ دھنستی تو طویل المدتی معاشی استحکام کا سفر اپنی منزل کی طرف رواں دواں رکھا جا سکتا تھا۔
پاکستانی معیشت کو انتہائی مشکل صورت سے نکال کر بہتری کی سمت میں گامزن کرنے میں وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مشترکہ حکمت عملی اور کاوشوں کی اہمیت اپنی جگہ، اگر دوست اور برادر ملکوں کے فراخدلانہ تعاون کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بھی ناانصافی ہو گی ۔ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں جہاں ریاض اور اسلام آباد میں سدا بہار دوستی کا غیر معمولی مظاہرہ سامنے آیا وہاں اس برس کے دوران ہونے والی متعدد مفاہمتی یادداشتیں حتمی و عملی صورت اختیار کرتی نظر آئیں۔
ضرورپڑھیں:وزیراعظم،فضل الرحمٰن کا ٹیلیفونک رابطہ،مدارس رجسٹریشن بل پرتحفظات دورکرنے کی یقین دہانی
سعودی دارالحکومت ریاض میں میٹھے پانی کی کمی کے مسائل، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے منعقدہ ون واٹر سربراہ اجلاس بہت اہم پیش رفت ثابت ہوئی۔ ون واٹر سمٹ اس اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل رہی کہ اس میں نہ صرف گلیشیروں کے پگھلاؤ سے لیکر پانی کی کمیابی، زراعت کو پہنچنے والے نقصان اور قحط کے خطرات سے بچنے کے اقدامات تجویز کئے گئے بلکہ آنے والے برسوں کے مسائل سے نمٹنے کے لئے سرمایہ کی فراہمی سمیت مختلف امور زیر غور آئے۔
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جن کا اس صورتحال تک کرہ ارض کے پہنچنے میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے تاہم مسئلے کے منفی اثرات سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر سب سے اوپر والے ممالک میں شامل ہے۔
ون واٹر سمٹ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور فرانس کے صدر ایمانویل میکرون سے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں بھی خاص اہمیت کی حامل تھیں۔
فرانسیسی صدر سے بات چیت میں زراعت، لائیو اسٹاک، آئی ٹی، پیشہ ورانہ مہارتوں میں ترقی اور پینے کے صاف پانی کے شعبوں میں بزنس ٹو بزنس تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا جبکہ سعودی ولی عہد نے چھ ماہ کے دوران پاکستانی وزیراعظم سے پانچویں ملاقات کو اس حقیقی محبت اور باہمی احترام کا ثبوت قرار دیا جو دونوں ممالک کے عوام کو جوڑتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی معاشی ترقی وخوشحالی کیلئے سعودی تعاون کی کلیدی اہمیت کے اظہار کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی، تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کے فروغ کو انتہائی ضروری قرار دیا ۔
ماسکو میں پاکستان اور روس کے درمیان 8 معاہدوں پر جبکہ اسلام آباد میں بیلا روس کے صدر کی موجودگی میں 15 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخطوں سے تعلیم، صحت، ماحولیات سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے امکانات نمایاں ہوئے۔
حال ہی میں کراچی میں منعقدہ’’ آئیڈیاز 2024ء ‘‘ نمائش کے نتیجے میں دفاعی آلات کی فروخت کی صورت میں خطیر زرمبادلہ کی آمدکی صورت پیدا ہوئی ۔ اندرون ملک تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت، پہلے سےموجودہ ذخائر کی پیداوار میں اضافے، ملکی درآمدات میں کمی برآمدات میں اضافے،اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے آنیوالی رقوم بڑھنے کی اطلاعات کے تناظر میں سرکاری اخراجات میں کمی کے اقدامات بھی جاری ہیں۔کھربوں روپے کی بچت کیلئے مزید وزارتوں کا رائٹ سائزنگ پلان بنایاجاچکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے 2 دسمبر کو یہ خوشخبری دی کہ 70 ماہ بعد افراط زر ایک بار پھر کم ترین سطح پر ہے ۔جس کے آنے والے دنوں میں یقیناً اچھے اثرات مرتب ہونگے۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر