اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے کمرشل بینکوں کو حکومت پاکستان کے قرضوں، سیکیورٹیز اور ضمانتوں کے سلسلے میں بین الاقوامی مالیاتی رپورٹنگ معیارات (IFRS-9) کے اطلاق کے بارے میں ہدایات یکم جنوری 2022 سے فعال ہو گئی ہیں۔ 2019 میں IFRS-9 کے ابتدائی اجراء کے بعد سے، اسٹیٹ بینک کی طرف سے 31 دسمبر 2021 تک کی چھوٹ بینکوں کو خود مختار اثاثوں کی مذکورہ بالا کلاسوں پر IFRS-9 کے نفاذ کے حوالے سے دی گئی تھی۔ اب چونکہ اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کے لیے مذکورہ استثنیٰ میں توسیع نہیں دی، اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنے پاکستانی روپے میں لئیے قرضوں (داخلی قرضوں) کی ذمہ داریوں میں ڈیفالٹ کر سکتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں، اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے لیے گئے سرکاری قرضوں پر نادہندہ ہونے کے امکان کو مدنظر رکھنا شروع کریں اور، اس کے نتیجے میں، اس طرح کے سرکاری قرضوں پر ہونے والی ممکنہ نادہندگی کے لیے اپنے مالیاتی گوشواروں میں مناسب پروویژن رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ پختہ یقین کہ حکومت کبھی داخلی/سرکاری قرضوں پر ڈیفالٹ نہیں کر سکتی عملی طور پر دفن ہو گیا ہے۔
ریاستی ذمہ داریوں پر پاکستان کی تاریخ:
اگست 1947 میں اپنے قیام کے بعد سے پاکستان نے کبھی بھی اپنے کسی بھی داخلی/سرکاری قرضے/ذمہ داریوں میں ڈیفالٹ نہیں کیا۔ مزید برآں، مشرقی پاکستان کی 1971 کی علیحدگی کے علاوہ، جب سرکاری دو طرفہ قرضوں پر ایک معمولی سا ڈیفالٹ ہوا، پاکستان نے کبھی بھی اپنے بیرونی قرضے پر ڈیفالٹ نہیں کیا۔ کارکردگی کی اتنی طویل تاریخ کے ساتھ، یہ بے حد حیرت انگیز ہے کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں سے پاکستانی روپے کے مالیت والے کریڈٹ اور وفاقی حکومت کی سیکیورٹیز رکھنے کے لیے انتظامات کا بندوبست کرنے کا کیوں کہا ہے؟
یہ تجویز سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت پاکستان، ایک خودمختار ریاست، جو اپنی کرنسی چھاپنے کی اہلیت رکھتی ہے، اپنے پاکستانی روپے میں لئے گئے قرض کی مد میں عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کبھی بھی ناکام رہے گی۔ لہذا سرکاری قرضوں اور سیکیورٹیز کو "خطرے سے پاک" سرکاری/ مالیاتی اثاثوں کی حیثیت سے محروم کرنے کی کوئی توجیح نہیں ہے۔
اس کا استدلال کیا ہے؟
اسٹیٹ بینک نے مذکورہ تبدیلی کی کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔ صرف ایک وضاحت کہ IFRS-9 کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ حکومتی قرضوں اور سیکیورٹیز کو 31 دسمبر 2021 تک استثنیٰ دیا گیا تھا، اس استثنیٰ کو واپس لینے کے لیے کچھ ٹھوس بنیاد ہونی چاہیے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اسٹیٹ بینک کو ایسا قدم اٹھانے سے پہلے حکومت پاکستان سے مشورہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس کے نتائج دور رس ہیں۔
مضمرات:
مضمرات میں سب سے اہم یہ کہ سرکاری قرضوں اور ریاستی سیکیورٹیز کو "خطرے سے پاک مالیاتی اثاثوں" کی حیثیت سے خارج کرنے کے نتیجے میں حکومت کے لیے قرضہ لینے کی cost یعنی لاگت میں اضافہ ہو گا۔ جب بینکوں سے یہ کہا جائے کہ وہ اس طرح کے اثاثوں سے منسلک خطرے سے متعلق اپنی بیلنس شیٹس میں انتظامات کریں، تو اس کے نتیجہ میں بینکوں کی کریڈٹ دینے اور سرکاری سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری کرنے کی لاگت (سود/مارک اپ وغیرہ) خود بخود بڑھ جائے گی۔
بینکوں کو جاری اسٹیٹ بینک کے مذکورہ بالا احکامت سے بینکوں کی حکومت کو لامحدود قرضوں اور کریڈٹس دینے کی صلاحیت پر بھی منفی اثر پڑے گا- جیسا کہ یکم جنوری 2022 سے پہلے رائج تھا۔ شرح سود سے قطعی نظر، اس نئے منظر نامے میں بینکوں کا سرکاری قرض ایک حد سے ذیادہ اٹھانا نا ممکن ہو جائے گا۔
نتیجتاً، حکومت کے لیے قرضوں کے معاہدے کرنا، بانڈز جاری کرنا اور ریاستی کاغذ کا اجراء کرنا زیادہ مہنگا ہوگا۔ یہ قدم نہ صرف قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ میں،بلکہ پہلے سے موجود شدید بجٹ خسارے میں بھی مزید اضافہ کرے گا۔
مزید برآں، حکومتی کریڈٹ اور ریاستی سیکیورٹیز کی ساکھ اور درجہ بندی کو بھی نقصان پہنچے گا۔ یہ مالیاتی اثاثے اب قرض دہندگان اور سرمایہ کاروں کو اس طرح متوجہ نہیں کر سکیں گے جس طرح اس تبدیلی سے پہلے تھے۔
یہ تبدیلی مالیاتی منڈیوں کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ حکومت کی داخلی ذمہ داریاں ڈیفالٹ کا خطرہ رکھتی ہیں جس کی وجہ سے یہ مالیاتی اثاثے ریاستی ہونے کے باوجود اپنی کشش کھو دیں گے۔
اس پیشرفت کا اثر ہمارے بیرونی قرضوں کی قیمتوں کے تعین پر بھی پڑے گا- کیونکہ اگر ملکی/حکومتی/داخلی قرضے ُپرخطر ہوں، تو قدرتی طور پر اس کا اثر پاکستان کے غیر ملکی کرنسی میں لئیے ریاستی قرضوں کی قیمت پر بھی پڑے گا۔ حال ہی میں پاکستان کے سکوک کی قیمت، امریکی بینچ مارک سود کی 1.73 شرح فیصد کے مقابلے میں، 7.95 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ پاکستان سے جاری کردہ سکوک پر اب تک کی بلند ترین شرح منافع ہے۔
نتیجہ:
یہ بےحد حیران کن ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پبلک پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی پر وزارت خزانہ کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدم اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 میں ترمیم کی منظوری کے ذریعے عمران خان کی کابینہ کی طرف سے دی گئی نام نہاد "خودمختاری" کے فیصلے کی پیروی میں اٹھایا گیا ہے جس پر ملک میں بڑے پیمانے پر بحث ہو رہی ہے۔ جس طرح سے پی ٹی آئی حکومت نے حال ہی میں مذکورہ ایس بی پی ترمیمی بل 2021 کو قومی اسمبلی میں بلڈوز کیا ہے اور جس طرح سے اس بل کو گزشتہ جمعہ سینیٹ سے غیر پیشہ ورانہ عجلت میں منظور کرایا گیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو پاکستان کی مالی خودمختاری کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔
یکم جنوری 2022 سے IFRS-9 کا نفاذ بھی حیران کن طور پر اسٹیٹ بینک قانون میں ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کے اپنے ہی مرکزی بینک سے قرضہ لینے کی بندش سے/ ممانعت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ حکومت کو درپیش سنگین مالیاتی بحرانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسٹیٹ بینک کا مذکورہ بالا اقدام پاکستان کی مالی خودمختاری پر ایک بے حد غیر ضروری، سنگین اور کاری ضرب کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے!
(مصنف: سینیٹر محمد اسحاق ڈار، یو کے فیلو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور سینیٹ آف پاکستان میں سابق قائد حزب اختلاف ہیں)