جدید ٹیکنالوجی سے خوراک کے بحران پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

Feb 06, 2023 | 13:54:PM
متعدد نسلوں کی صدیوں پر محیط ایجاد معدومیت کے خطرے کے شکار ہیں۔
کیپشن: فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(تنزہ حیدر) متعدد نسلوں کی صدیوں پر محیط ایجاد معدومیت کے خطرے کے شکار ہیں۔  

 یہ کھانے کی اشیا ہیں کہ یہ صرف خوراک اور کمائی کا ذریعہ ہی نہیں ہیں۔ یہ کسانوں اور کھانا پکانے والوں کی متعدد نسلوں کی صدیوں پر محیط ایجاد اور دانش کا نچوڑ ہیں، جنھیں آباؤ اجداد نے ہزاروں سال میں تیار کیا لیکن خوراک کا یہ زرخیز تنوع رفتہ رفتہ وقت کی چکی میں گم ہوتا جا رہا ہے۔

’Eating to Extension  ‘نامی کتاب میں بی بی سی صحافی ڈین سالاڈینو اپنے تجربات کی تحریر میں بتایا ہے کہ جو انھوں نے دنیا کے مختلف کونوں میں منفرد خوراک اگانے اور پکانے والوں سے مل کر کیے۔ ڈین سالاڈینو نے خوراک کے خزانے کو لاحق خطرات اور اس تنوع کو خاتمے سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات پر بات چیت کی ہے۔ 

ڈین سالاڈینو کا خاندان سسلی سے ہے اور مالٹے کا اس جزیرے کی ثقافت اور شناخت پر گہرا اثر ہے۔ سنہ 2007میں   بی بی سی کے ریڈیو پر خوراک کے حوالے سے ڈین سالاڈینو پہلے پروگرام کےلیے سسلی گئے تو ان کی توقع تھی کہ مالٹے کی کٹائی پر جشن کو پیش کروں گا۔لیکن جب انہوں نے روایتی مالٹے اگانے والے کسانوں سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی آخری فصل کاٹ رہے ہیں کیونکہ اب درآمدی مالٹے کی مانگ بڑھ چکی ہے اور چھوٹے کاشت کار کے لیے کام کرنا مشکل ہو چکا ہے۔

ڈین سالاڈینو کا کہنا ہے کہ جب وہ سسلی گئے اور وہاں لنٹینی نامی قصبے میں انہیں کھانے کی دعوت ملی جہاں ہر پکوان میں وہی روایتی مالٹے استعمال ہوئے تھے اور ان کی ملاقات شمالی اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے ہوئی جو ’سلو فوڈ موومنٹ‘ (یعنی سست خوراک) کی تحریک کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ سسلی کے اٹنا آتش فشاں کی ڈھلوان پر اگنے والے ان مالٹوں کا نام معدوم ہوتی خوراک کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ اس فہرست میں آج 150 ممالک کی ساڑھے پانچ ہزار اشیا ہیں۔ یہیں سے میری دلچسپی اس موضوع میں پیدا ہوئی۔

 ضرور پڑھیں :سائنس دانوں نے برف کی نئی قسم ایجاد کر لی

ڈین سالاڈینو کا کہنا ہے کہ خوراک دنیا کو سمجھنے کے لیے ایک حیرت انگیز آئینہ ہے۔ اس کتاب میں ان پکوانوں کے آغاز کی کہانی ہے، کیسے مشکل زمینی حالات میں خوارک نے مقامی آبادی کو زندہ رکھا اور خوراک سے تعلق نے کیسے ان آبادیوں کی شناخت اور ثقافت پر اثر ڈالا۔ تو میں نے جدت، سائنس، ثقافت، زندہ رہنے کی جستجو کی نظر سے خوراک کو دیکھا کیونکہ یہ ان تمام چیزوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ 

 

سوالبارڈ ورلڈ سیڈ بینک سائنس دان کیری فاؤلر نے تصور دیا تھا۔  یہاں دنیا بھر سے بیج لائے گئے اور اتنے وسیع پیمانے کا یہ تنوع ہی بہت سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بیج کاشت کاری کے 12 ہزار سال کی مجموعی تاریخ کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسے لوگ جنھوں نے ان بیجوں کو نسل در نسل منتقل کیا۔ یہ ہماری میراث ہے، کیونکہ ہم ہزاروں سال میں پیدا ہونے والے اس تنوع پر منحصر ہیں لیکن بہت کم لوگ ان کہانیوں کو جانتے ہیں۔

ہم تصاویر، مجسموں اور کیتھیڈرلز میں انسانی تخیل اور تصور کی بہترین مثالیں دیکھتے ہیں لیکن ہمیں معدومیت کے خطرے سے دوچار خوراک کو بھی اسی طرح دیکھنا ہو گا۔

 یہ بھی پڑھیں:سام سنگ کمپنی کی جانب سے صارفین کیلئے خوشخبری

کتاب کے آغاز میں مشہور امریکی ماہر حیاتیات ریچل کارسن کا ایک جملہ تحریر ہے کہ قدرت نے تنوع پیدا کیا لیکن انسانوں نے اس تنوع کو سادہ بنانے کی کوشش کی۔ اور آپ کے نزدیک ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں یکسانیت ہے۔

ریچل کارسن اپنی کتاب ’سائلنٹ سپرنگ‘ (خاموش بہار) میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کے بارے میں خبردار کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئی تھیں۔ وہ میرین بائیولوجسٹ تھیں اور انھوں نے تمام چیزوں کی مشترکہ قدر کو شناخت کر لیا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ لوگ قدرت کی پیچیدگی میں پنہاں خوبصورتی اور ضرورت کو سمجھیں لیکن انسانوں کی فطرت ہے کہ وہ قدرت کو سادہ طریقے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں خوراک ایک جیسی ہوتی جا رہی ہے جیسے کپڑے ایک طرح کے پہنے جانے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر کیلے کی 20 ہزار اقسام ہیں لیکن ہم صرف ایک قسم کھاتے ہیں۔

متنوع خوراک کو مٹنے سے بچانا اتنا ضروری کیوں ہے؟

20ویں صدی کے دوسرے حصے میں یہ تصور پیدا ہوا کہ خوراک کے مسئلے کو ٹیکنالوجی کے حل سے سلجھا لیا گیا ہے، جس میں پانی کی فراوانی دینے والا نیا نہری نظام، کیمیائی کھادیں شامل تھیں لیکن اب ہم جان رہے ہیں کہ خوراک کے اس نظام کی ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے کیونکہ ایسی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوا جنھوں نے زمین کی ماحولیات پر منفی اثر مرتب کیا۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ایک سطح تک کام کرتے ہیں لیکن وہ مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ تنوع کی حفاظت کا پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ مستقبل میں فصلوں کو بیماری سے بچانے یا بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں محفوظ رکھنے کا حل خوراک کے جینیاتی تنوع کی مدد سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔

بورلاگ کا کہنا ہے کہ اس نظام کی میعاد کم ہے اور اس نے ہمیں صرف وقت مہیا کیا تاکہ ہم ایک طویل مدتی حکمت عملی بنا سکیں۔ اور میرا خیال ہے کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سائنس اور خوراک کی پیداوار سے جڑے عظیم ذہن خوراک کی پیداوار کے ایسے نظام کی تشکیل پر غور کر رہے ہیں جو قدرت کے قریب تر ہو، جس سے ہماری اور زمین کی صحت پر مضمر اثرات نہ ہوں۔

آپ کی کتاب میں درج چند خوراک کی مثال جو خطرے کا شکار ہیں جیسا کہ 

·       میکسیکو کی اولوٹون مکئی۔

·       وینیزویلا کے سریولو کوکوا کی مثال۔

میکسیکو کی اولوٹون مکئی:

مکئی متنوع خوراک کی ایک بہترین مثال ہے۔ جب دیگر مالک کے ماہرین نے 1970 میں میکسیکو کے اس علاقے کا جائزہ لیا تو ان کو مکئی کا ایک ایسا غیر معمولی پودا ملا جو کافی طویل قامت تھا اور اس کی جڑیں فضا میں تھیں۔ یہ مکئی مقامی آبادی کئی نسلوں سے اونچائی پر ایسی زمین پر کاشت کر رہی تھی جو زراعت کے لیے موزوں ہی نہیں سمجھی جاتی۔

گذشتہ تین سے چار سال میں ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا کہ اس مکئی میں ایسے بکٹیریا ہیں جو نائیٹروجن کی مقدار کو تبدیل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ مکئی ایک مثال ہے کہ کوئی فصل مصنوعی کھاد کے بغیر کیسے اگائی جا سکتی ہے۔

 کھاد کی تیاری بھی ایندھن کی وسیع مقدار کو جلانے کی وجہ ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے متنوع خوراک فوڈ سیکیورٹی میں کیسے مدد دے سکتی ہے۔

 وینیزویلا کے سریولو کوکوا کی مثال:

یورپ میں جو کوکوا سب سے پہلے پہنچا وہ وینیزویلا کا تھا جس نے دنیا کا ذائقہ بدل دیا۔ لیکن 20ویں صدی میں تیل انڈسٹری کی ترقی کی وجہ سے سریولو کوکوا میں سرمایہ کاری رک گئی اور کسانوں کو پیسہ ملنا ختم ہو گیا جس سے یہ جینیاتی تنوع مٹ گیا۔ڈین سالاڈینو نے اپنی کتاب میں بتایا کہ جب میں وینیزویلا گیا تو میری ملاقات ماریا فرنینڈا نامی خاتون سے ہوئی جو اس کو بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

ماریا فرنینڈا نے اس وقت ایک مشن کا آغاز کیا جس کے تحت کوکوا کی اس نسل کی پیداوار کے لیے درکار مہارت، روایات اور جینیاتی اقسام کو ازسرنو زندہ کیا گیا۔ انھوں نے کسانوں سے مل کر کوکوا کو چاکلیٹ کی شکل دینا شروع کی تاکہ زیادہ پیسہ کمایا جا سکے۔ یورپ میں اس کوکوا کو اس لیے سراہا گیا تھا کیوں کہ اس میں کڑواہٹ کم تھی۔ آجکل چاکلیٹ میں چینی ملائی جاتی ہے لیکن سریولو کوکوا کا ہمیشہ سے ہی ایک متناسب، منفرد ذائقہ تھا۔

خوراک کو کیسے بچایا جا سکتا:

کتاب میں آپ نے بات کی ہے کہ کیسے ایسی خوراک کو بچایا جا سکتا ہے اور آپ نے دو حل بتائے ہیں جن میں سے پہلا زرعی شعبے کو ملنے والی مالی رعایات کے مسئلہ کو حل کرنا ہے۔ 

میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے کتاب میں جن 30 سے زیادہ خوراک کا ذکر کیا ہے وہ دنیا کا پیٹ پال سکتی ہیں لیکن میں نے یہ ضرور کہا ہے کہ ہمیں کاشت کاری کے متعدد نظام درکار ہیں۔

ہاں، ٹیکنالوجی اہم ہے لیکن ہمیں ایسا نظام بنانا ہو گا جہاں تنوع بھی ترقی کر سکے اور ایسا ہونا اس لیے مشکل ہے کیوں کہ موجودہ نظام کے پیچھے اربوں ڈالر کی زرعی مالی مدد شامل ہے جو ان تین بنیادی فصلوں کی حفاظت کرتی ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا۔

کتاب میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بہت زیادہ فوائد چھپے ہیں لیکن جب تک ان میں سرمایہ کاری نہیں ہو گی ہم ان رازوں تک نہیں پہنچ سکتے۔

 

ہادذا کی کہانی

میں نے ہادذا کی کہانی سب سے پہلے بیان کی جو اس علاقے کے شکاری تھے جہاں افریقہ میں انسان کا جنم ہوا۔ان کی خوراک کافی متنوع تھی جس میں تقریباً 800 پودوں اور حیوانات کی اقسام شامل تھیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تنوع کتنا اہم ہے اور یہ بھی کہ وہ اس لیے زندہ رہے کیوں کہ ان کے پاس قدرت کا گہرا علم موجود تھا۔

ہادذا کی طرح شاید ہم کبھی بھی شکاری نہیں بنیں گے لیکن ہم ان سے متاثر ہو کر قدرت سے مضبوط تعلق ضرور قائم کر سکتے ہیں تاکہ ہمیں علم ہو سکے کہ ہم قدرت پر کس قدر انحصار کرتے ہیں۔

ہادذا یہ بات جانتے تھے اور ہمیں بھی اس بات کو سمجھنا ہو گا۔

 ڈین سالاڈینو: ایسی کون سی بات ہے جو آپ کے خیال میں قارئین کو ذہن میں رکھنی چاہیے جب وہ کچھ تیار کرنے لگیں یا پھر کھانے کی پلیٹ کے سامنے بیٹھیں؟آپ جو بھی اجزا استعمال کر رہے ہیں، میں آپ کو دعوت دوں گا کہ ایک لمحے کے لیے رک جائیں اور یہ سوچیں کہ ان کے پیچھے ایک کہانی ہے، ہزاروں سال پرانی، ایسے کسانوں کی جنھوں نے اس بات کو ممکن بنایا کہ یہ آپ کی پلیٹ تک پہنچ سکے۔ اس تاریخ کو جاننا اہم ہے۔

میں ان کو اس بات کی دعوت بھی دوں گا کہ کسی اور موقع پر ایک نئی نظر سے اسی چیز کی ایک نئی قسم خریدیں اور اس کا تجربہ کریں اور میں آپ کو دعوت دوں گا کہ ان لوگوں سے رابطہ قائم کریں جو آپ کی خوراک اگانے کے ذمہ دار ہیں۔

میں نے اپنی کتاب میں ایک 70 سالہ چینی کاشت کار کی مثال دی ہے جو ایک نایاب لال چاول اگاتا ہے،جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اسے کیسے بیچے گا تو اس نے اپنی جیب سے فون نکالا اور مجھے دکھایا کہ وہ کس طرح بیجنگ میں خریداروں سے رابطے میں ہے۔جدید ٹیکنالوجی سے یہ ممکن ہے کہ کاشت کاروں سے رابطہ قائم کیا جا سکے اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ متنوع خوراک کی طرف آئیں۔

اس کتاب میں خوراک کو صرف غذائیت کے ذریعے کے طور پر نہیں بلکہ سالہا سال اور نسل در نسل کی جدت اور مہارت کی ایک کہانی کے طور پر پیش کیا گیا جو مجھے بہت دلچسپ لگا۔ آپ کے لیے یہ کس بات کی نمائندگی کرتی ہیں۔