(ویب ڈیسک )ڈراما ’تیرے بن‘ پاکستانی سماج میں بڑے زمینداروں کی حویلیوں کے اندر کی کہانی ہے، جن کی بنیادوں میں خون کی اینٹیں اور جذبات کا سیمنٹ لگا ہوتا ہے۔
ڈرامے کے مرکزی کردارمیرب اور مرتسم ایک ہی خاندان سے ہیں اور چچا تایا کی اولاد ہیں مگر میرب کو کہانی کے دوسرے بڑے مرکزی کردار ماں بیگم کے پرانے پڑوسی اور خاندانی دوست وقاص اور ان کی بیگم انیلا پالتے ہیں۔وہ شہر کراچی میں ہی رہی ہے، جب کہ میرب کے ابا انور کی حویلی حیدرآباد میں ہے، جو بہت بڑے زمیندار ہیں۔
اس حویلی میں نئی نسل کے بچوں کو یہی علم ہے کہ ان کے چچا انور نے شادی نہیں کی لیکن یہ معلوم ہونے پر کہ میرب ان کے چچا ہی کی بیٹی ہےسب حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔بڑی حویلیوں کے اندر کی جبری زندگیوں میں ہر نئی نسل کے لیے ایک نیا رشتہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ امارت کے جبر اور قیدو بند کی نفسیات جہاں ظلم کی انتہا ہے وہیں ان کے اندر خلوص کی قیدی کونپلیں بھی نکل رہی ہوتی ہیں۔
یہ کونپلیں جڑ پکڑ لیں یا مسل دی جائیں، یہ وقت ہی ثابت کرتا ہے۔ حویلی میں میرب کی21 ویں سالگرہ پرماں بیگم اسے اپنے بیٹے مرتسم کے لیے نہ صرف پسند کر لیتی ہیں بلکہ بنا کسی سے پوچھے، بات کیے اس بات کا اعلان بھی کر دیتی ہیں کہ میرب ان گھر کی ہونے والی بہو ہےماں بیگم میرب کو اپنے خاندانی کنگن بھی پہنا دیتی ہیں لیکن یہ فیصلہ مرتسم اور میرب کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔
لیکن خاندانی روایات کے مطابق دونوں خاموش رہتے ہیں ۔ماں بیگم جو گھر کی سب سے بڑی بھابھی ہیں، ان کا حکم اس گھر پر ہی نہیں، ساری جاگیر پر چلتا ہے اور ان کے سامنے کوئی نہیں بول سکتا۔ ان کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کر سکتا۔ بشریٰ انصاری ماں بیگم کے کردار کو خوب نبھا رہی ہیں۔مرتسم کو اس کی ننھیالی کزن حیا بھی پسند کرتی ہے جو اسی حویلی میں کسی وجہ سے پلی بڑھی ہے، اس لیے خود کو یہاں کی وارث سمجھنے لگتی ہے۔ مرتسم کی بہن کو بھی علم ہے کہ حیا مرتسم کو پسند کرتی ہے۔ حیا کو اس اچانک منگنی کی خبر سے شدید دھچکہ لگتا ہے۔
دوسری جانب انور اپنی ساری زمینیں میرب کے نام کر دیتے ہیں جو ماں بیگم کے خاندان کے لیے آمدن کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، اس لیے اب ماں بیگم اپنے بیٹے کے انکار کو کسی طور اہمیت نہیں دے رہیں کہ اگر یہ لڑکی نہ رہی تو زمین تقسیم ہو جائے گی۔مرتسم کو میرب سے کوئی لگاؤ نہیں ہے لیکن حیا جب اس کے آس پاس تتلی بنتی پھرتی ہے تو وہ اس کا تقابل میرب سے ہی کرنے لگتا ہے کہ وہ کم از کم باحیا تو ہے۔
یہ وہ لاشعوری اور قریبی سچ ہے، جس نے ڈرامے کی اگلی اقساط میں کرنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:دوستی نہیں تو ڈالرز دو،لڑکے نے لڑکی پر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
جس طرح محبت کے بیج میں نفرت ہوتی ہے، یونہی نفرت کے اندر بھی محبت چھپی ہوتی ہے۔ جو لمحہ غالب آ جاتا ہے، انسان اس کا اسیری ردعمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔میرب نے مرتسم کی طرح ماں بیگم کے سامنے شادی سے انکار بھی کر دیا ہے مگر ماں بیگم اس کو زمینوں کی وجہ سے برداشت کر رہی ہیں، ورنہ وہ اور ان کا بیٹا اتنی بڑی جائیداد سے محروم ہو جائیں گے۔
اسی کہانی کو اگر بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو یہ سماج کا آئینہ ہے۔ انسان کو انسان سے نہیں، اس کے ساتھ جڑی میسر آنے والی دولت سے محبت بڑھتی جا رہی ہے۔
کہانی یوں بھی چھوٹے کینوس کی نہیں ہے۔ یہی وہ جاگیریں ہیں جن کی بنیاد پر ملک میں آٹے اور سبزی کا ریٹ نکلتا ہے۔ سرکار ان زمینداروں سے خرید کر سبسڈی دیتی ہے اور یہ لوگ اپنی فصلوں کی منہ مانگی بولی لگاتے ہیں۔ملک میں خوراک کے بحران میں یہ چند بڑے گھرانے سیاست کے ساتھی ہوتے ہیں۔ زمین کھاد کے ساتھ خون سے بھی سیراب ہوتی ہے۔ یہ اگلی اقساط میں واضح ہو جائے گا۔ مرتسم اور میرب کی تو ان کو لڑتے لڑتے محبت ہو ہی جانی ہے کیونکہ دونوں کے درمیان میں سب کمزور کردار یا کمزور اور مجبور محبتیں ہی ہیں۔
میرب کی ماں کون تھی اور انور کا ماضی کتنا باغی ہے، یہ پہلو ابھی تشنہ ہیں۔دوسرا حیا کا کردار اپنی جگہ سوال ہے کہ وہ ننھیال میں کیوں مقیم ہے۔ میرب اور حیا البتہ اس وقت ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔
ایک کا انتخاب ماں بیگم نے حویلی کے لیے کر لیا ہے اورجو گھر میں پلی بڑھی تھی، حویلی کے نظام سے آشنا ہی نہیں بلکہ اس میں ڈھلی ہوئی ہے، اسے تھپڑ مار کر رد کر دیا ہے۔
زندگی کی بنیادوں کو سمجھنے کے لیے کہانی کے تجسس کو خوشبو بننے تک ڈراما دیکھا جا سکتا ہے۔