1500 حسین لڑکیاں اور اکیلا کپتان 

عامر رضا خان 

Jan 06, 2023 | 16:24:PM
1500 حسین لڑکیاں اور اکیلا کپتان 
کیپشن: عامر رضا خان
سورس: 24 NEWS
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

وہ بہت سینئر صحافی ہیں میری عمر جتنا تجربہ رکھنے والے صحافی، کبھی جھوٹ نہ بولنے والے صحافی دامن پہ کوئی داغ نہ ہاتھوں پہ کوئی چھینٹ والے مصرعے سے مطابقت کھانے والے انسان، اسلیے اُن کی کہی بات پہ شک ہونا مناسب نہیں ہے۔

یہ بزرگ صحافی بول رہے تھے اور میں سامع تھا انہوں نے بتانا شروع کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوگئے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف کو کس طرح ملک کی اُس اَپر کلاس میں شامل کیا گیا یا اُس کا تاثر دیا گیا جو 1999ء کے بعد لگنے والے مارشل لاء کے بعد آنے والی آسان دولت سے لاکھوں پتی کی فہرست سے نکل کر پہلے کروڑوں اور پھر اربوں پتی بن گئے۔

ضرور پڑھیں :دہشت گرد کا وکیل جھوٹا ہے آؤ ثابت کریں 

اس کلاس کیلئے عمران خان ایک ہیرو ایک مینٹور کی حثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ جنرل مشرف کی سیاسی وراثت کا امین بھی تھا جس نے اس مڈل کلاس کو اپر کلاس اور پھر پوش کلاس بنانے میں مدد کی، عمران خان اس کلاس کیلئے ایک مسیحا دولت کا محافظ بن کر سامنے آیا اور وہ اس پر سب کچھ لٹانے کو تیار ہوگئے، ’تن، من، دھن‘ یعنی سب کچھ اپنے کپتان پر لُٹا دیا، خواتین اپنی فیملی کے کپتان کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کا کُھل کر اظہار کرنے لگیں کوئی بات اس کلاس سے ڈھکی چُھپی نہیں تھی اور نہ ہی ان نو دولتیوں کیلئے ان باتوں کو معیوب جانا جاتا تھا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دولت نے دنیا بھر کے دروازے کھول دیے۔ باپردہ دنیا سے نکل کر بے پردہ دنیا کی برہنگی کو دیکھ کر آنکھیں ہیرا ہوئیں وہ اس لچر پن، آوارگی اور کھلے عام مباشرت کو نہ صرف جائز سمجھنے لگے بلکہ اسے ترقی کا زینہ بھی خیال کرنے لگے، یہ ایک ایسا تیار چارہ تھا جسے کھانے اور کھیلنے کیلئے ایک پلے بوائے سے بہتر آپشن ہو ہی نہیں سکتی تھی لہذا یہی ہوا اور یہ خاندانی عصمت و رفت کے جنازے کی صورت دانہ ایک ایک کرکے اپنے کپتان کی جھولی میں گرتا رہا۔

یہ تو وہ کلاس تھی جس کیلئے کپتان کو کچھ مخنت نہ کرنا پڑی لیکن ابھی ایک اور کلاس بھی تھی یہ وہ لوگ تھے جو جوان تھے توانائیاں اور رعنائیاں جوبن پر تھیں کچھ کرنے کا عزم بھی تھا اور اپر مڈل کلاس میں جانے کا جنون بھی اس نوجوان کلاس کو صرف سہانے خواب دکھا کر اور کچھ نہ کچھ سنگھا کر اپنے ساتھ ملایا جاسکتا تھا کم تعلیم یافتہ اور اپنے حالات سے تنگ نوجوانوں کو کیا چاہیئے ہوتا ہے ایک دلاسہ اور محبوب کے دیدار کی آشا تو وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے اب یہ مشکل مرحلہ تھا۔ نوجوانوں کو اس فریب دام میں پھنسانے کیلئے کیا کیا جائے؟

یہ بھی پڑھیں :مُرشد ،کالا جادو اور 36 گھنٹے کا روزہ!

مغربی آقاؤں نے اس کا بھی توڑ ڈھونڈ لیا اس مقصد کیلئے شوبز سٹارز اور کھلاڑیوں کو خریدا گیا کیسے؟ (یہ ایک الگ بلاگ میں لکھوں گا) لیکن معاملہ یہیں حل ہوتا نظر نہیں آتا تھا کہ ٹی وی پر چلنے والی حقیقت بھی ورچوئل رئیلاٹی یا تصوراتی تسکین ہی ہوا کرتا ہے نوجوانوں کو تو زندہ سلامت اپنے سامنے اپنی روح کی تسکین کا سامان چاہیئے تھا لیکن کرنے والوں نے اس کا بھی انتظام کرلیا جس کیلئے ملک کے مختلف حصوں سے پروفیشنل لڑکیاں جنہیں موڈ سکاڈ بھی بنایا جاسکے اور ’گھریلو‘ بنانے کا بھی بندوبست کیا جاسکے۔

یہاں وہ سانس لینے کیلئے رکے تو سوال داغ دیا یہ لڑکیاں کہاں سے دستیاب ہوئیں؟ اور اس کا ثبوت کیا ہے؟

وہ پھر گویا ہوئے کہ اس کیلئے پروفیشنلز بروکرز کی مدد حاصل کی گئی یوں ملک کے چپے چپے سے مال دستیاب ہوا اور رہی بات ثبوت کی تو میں یہ بات پہلے کرچکا تھا لیکن اب عائشہ گلا لئی کی ایک ویڈیو جوکہ پرانی ہے دوبارہ منظر عام پر شہود پر آئی ہے جس مین وہ بتا رہی ہیں کہ جن خواتین کا ’خان دے جلسے وچ اج میرا نچنے نوں جی کردا‘ تھا وہ کہاں سے آتیں تھیں یہ ناچنے اور انداز و ادا دکھانے والی لڑکیاں جب ہائر کی جاتی تھیں تو ان کی سلیکشن کیلئے ان کے پورے جسم والی تصویر خان کو دکھائی جاتی تھی جس کے بعد کپتان فیصلہ کرتا تھا کہ کس لرکی کو ٹائیٹ جینز اور شرٹ پہنانی ہے اور کسے مڈل کلاس گھریلو خاتون کا روپ دینا ہے۔

اس مقصد کے حصول کیلئے ہر شہر میں ایسے بیوٹی پارلر دستیاب کرائے گئے جہاں ان کو باقائدہ میک اپ سے تیار کیا جاتا یہ 1500 لڑکیوں کا ایک گروپ تھا جنہیں مختلف شہروں میں جلسوں کی زینت بنایا جاتا تھا یعنی لاہور کی لڑکیاں کراچی، ملتان اور پشاور اور اسی طرح وہاں کی لڑکیاں دیگرشہروں کے جلسوں میں پہنچائی جاتی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اکا دکا خواتین جو اَپر کلاس اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھیں وہ دام فریب میں آئیں اور جلوسوں کی رونق بڑھائیں یہ تو اس سرمایہ کاری کا سود تھا اصل تو وہ نوجوان تھے جو پاکسان کے ویزے کو یورپی ویزہ اور ہر لڑکی کو انجلینا جولی کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، وار کاری ثابت ہوا اور یوں کپتان کے جلسوں میں بڑی تعداد کی شرکت یقینی ہوئی لیکن اب آہستہ آہستہ یہ شداد کی جنت احمقوں کی جنت بنتی جا رہی ہے۔

لڑکیاں آٹھ دس کی مسلسل مخنے شاقہ سے تھک سی گئی ہیں عمریں بھی ڈھل گئی ہیں اس لیے لانگ مارچ اور جلسوں میں نہ وہ پرانے والا جوش و جذبہ ہے نہ رعنائی یہ سب ماضی بن رہا ہے اس پر یہ کہ کپتان کی ایک جیسی رٹی رٹائی تقریر اور بار بار کے یو ٹرنز نے بھی معاملہ کچھ خراب کردیا ہے ۔

مجھے ان کی باتوں سے اتفاق ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات تو حقیقت ہے کہ اب بہت سے نوجوانوں کا کپتان کے جلسے میں نچنے کو دل نہیں کرتا کہ:-

 نہ جنوں رہا نہ پری رہی 

جو رہی سو بے خبری رہی

Amir Raza Khan

عامر رضا خان سٹی نیوز نیٹ ورک میں 2008 سے بطور سینئر صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے۔ 26 سالہ صحافتی کیریر مٰیں کھیل ،سیاست، اور سماجی شعبوں پر تجربہ کار صلاحیتوں سے عوامی راے کو اجاگر کررہے ہیں