طالبان کی ناکامیوں کا وبال 

اسلم اعوان

Jan 06, 2025 | 22:57:PM
طالبان کی ناکامیوں کا وبال 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

گزشتہ ہفتے کے دوران پاک افغان بارڈر پر کشیدگی میں تیزی سے اضافہ کے نتیجے میں پاکستانی سکیورٹی فورسز  کےایک رکن سمیت درجنوں شہری  مارے گئے  ، منگل کے روز، پاکستان نے افغانستان کے صوبہ پکتیا میں فضائی حملہ کرکے ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے پناہ لے رکھی تھی تاہم، افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان پر فضائی حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 46 شہریوں کی ہلاکت کا الزام لگایا ، پاکستان کا اصرارہے کہ فضائی حملہ ٹی ٹی پی کی 25 دسمبر کی اُس  کارروائی  کا  جواب تھا ، جس میں کم از کم 16 پاکستانی فوجی شہید ہوئے ۔

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے ساتھ ہی پاک افغان بارڈر پہ جھڑپوں  کے علاوہ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی  اور پاکستانی طالبان بھی پُراسرار طور پہ تنازعات   کا حصہ بنتے گئے  ، اِس سنڈروم کی  اور  وجوہات بھی  ہوں گی لیکن  طالبان قیات کی بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں اور  پاور پالیٹیکس کی حرکیات سے ناواقفیت بنیادی وجہ بنی ۔  طالبان نے  اپنے اقتدار کی عالمی توثیق حاصل کرنے میں ناکامی  سمیت بہت جلد  اپنے دیرینہ  اتحادی ، پاکستان ، کی حمایت کھو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ جنگیں تو لڑ سکتے ہیں لیکن حکمرانی کی اہلیت سے عاری ہیں  ۔ چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ہی  ہفتے کے روز کابل میں گروپ کی وزارت داخلہ پر ایک بڑے حملے میں کم از کم 10 طالبان جنگجو ؤں کو موت کا سامنا کرنا پڑا ۔کابل میں ایئرپورٹ روڈ پر وزارت کے ہیڈکوارٹر پر ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ (این آر ایف) نے قبول کی ہے ۔ یہ حملہ طالبان کے قائم مقام وزیر برائے مہاجرین  ، خلیل حقانی ، کی کابل میں خودکش  حملہ میں ہلاکت کے چند روز بعد  کیا  گیا ۔ طاقتور حقانی نیٹ ورک کے سینئر رکن اور طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا  کا وزارت کے اندر  بڑے حملے میں  مارا جانا  طالبان دھڑوں کے  داخلی تنازعات کی نشاندہی  کر تا ہے ،  عام خیال یہی ہے کہ افغانستان میں  مُلا ہبت اللہ اور مُلا یعقوب کے قندھاری گروپ کے برعکس حقانی  نیٹ ورک کو پاکستان  سے  قریبی تعلقات کا  پُرجوش حامی  سمجھا جاتا ہے  ۔

 این  آر ایف نے کہا ہے کہ ہفتہ کے حملہ  کا مقصد طالبان کے کچھ محفوظ مقامات کے خلاف اپنی جنگی صلاحیتوں کا اظہار کرنا تھا اور یہ طالبان کے خلاف واحد پیچیدہ حملہ نہیں  بلکہ اِسی سال ہم نے افغانستان کے 20 صوبوں میں ان کے خلاف 360 سے زیادہ فوجی آپریشن کیے  ، افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ این آر ایف کی جارحانہ پیشقدمی سے  یہی ظاہر ہوتا ہے کہ احمد مسعود کی مزاحمتی تحریک کابل کے دروازے تک پہنچ چکی ہے ۔ اگست 2021 میں امریکی انخلاء کے بعد ہاتھ لگنے والے  لڑاکا طیاروں اور ہتھیاروں کی نمائش کے ساتھ  فوجی پریڈ  میں اپنی دوسری بار اقتدار میں آنے کی تیسری سالگرہ منانے میں طالبان حکومت  معمور نظر آئی لیکن  اِس جشن کے  عقب میں متعدد محاذوں پر طالبان کی پسپا ئی نئی تاریخ رقم کرنے والی ہے ۔جن میں  اہم یہ ہے کہ طالبان   حکومت ، داعش   سمیت  علاقائی استحکام کے لئے خطرہ سمجھے جانے والے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروپوں کو نیوٹرلآئز  کرنے میں بُری طرح  ناکام رہی ہے  اور یہی امر  پاکستان  کی قومی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنکر نمودار ہو رہا  ہے ، جس سے نمٹنے کی بجائے طالبان رجیم ایسے خطرات کو پاکستان کے خلاف دباؤ کے ہتھکندؤں کے طور پہ  استعمال کرنے  پہ اتر آئی  ہے ۔ انکی یہی غیر ذمہ دارانہ روش بہت جلد داعش کو افغان معاشرے پہ غلبہ پانے کا موقعہ فراہم کر سکتی ہے۔  اگر  آج پاکستان  ، افغانستان کو داعش خراسان کے ہاتھوں میں جانے سے  بچاے کی خاطر متبادل آپشنز اختیار نہیں کرتا  تو جنوبی ایشیا ایک بار پھر کبھی نہ تھمنے والی طویل جنگووں  کی لپیٹ میں آ سکتا ہے ۔ چنانچہ  این آر ایف کی غیرمعمولی پیشقدمی کے دوران پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ  جنرل عاصم ملک کا تاجکستان کا ہنگامی دورہ   سیکیورٹی پیراڈائم میں بنیادی تبدیلیوں کی طرف اشارہ  کرتا ہے۔

 دریں اثناء افغانستان میں تیزی سے  بدلتی صورت حال کے پیش نظر پچھلے چند دنوں کے دوران  وزیراعظم شہبازشریف  نے اعلی سطحی میٹنگز  میں افغان طالبان کے  ناکامیوں کے وبال سے نمٹنے کی حکمت عملی پہ غور و خوص   شروع کر دیا  ہے  ۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ طالبان کی سہل انگاری کی بدولت داعش خراسان عدم استحکام پیدا کرنے والے دہشت گردانہ حملوں کو بڑھا  رہی ہے ، گزشتہ سال جنوری میں کابل میں دشت برچی کے ہزارہ محلے پر حملہ ، اپریل کے آخر میں ہرات کی  مسجد میں فائرنگ سے چھ شیعہ ارکان  کے قتل کے علاوہ مئی میں بامیان میں ہسپانوی سیاح کے قتل سمیت  داعش خراسان گزشتہ ہفتے کابل کے ایک پرہجوم  بازار میں ہونے والے دھماکے کی  ذمہ دار  ہے جس میں 11 افراد زخمی ہوئے ۔ اقوام متحدہ نے جون میں متنبہ کیا تھا کہ  داعش طالبان کے منحرف ارکان کو بھرتی کر رہی ہے اور مبینہ طور پر داعش ، طالبان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس جی ڈی آئی اور حکومتی وزارتوں میں جگہ بنا چکی  ہے ، جیسا کہ جولائی میں دہشت گرد گروپ سے  روابط کے الزام میں جی ڈی آئی  کے 20 ارکان کی گرفتاری میں دیکھا گیا ۔ ایک اور طالبان مخالف  گروپ افغانستان فریڈم فرنٹ ، جس کی قیادت سابق جنرل یاسین ضیاء کر رہے ہیں ، پورے ملک میں طالبان افواج پہ حملے کر رہا  ہے  ۔ میڈیا رپوٹس کے مطابق پچھلے پندرہ دن میں ، اے ایف ایف نے سات صوبوں میں طالبان پر 15 سے زیادہ حملے کیے ، صوبہ فاریاب میں  فوجی کمپاؤنڈ پر حملہ میں دو طالبان جنگجو مارے گئے ، متذکرہ گروپ نے دو ماہ قبل بھی کابل کے ہوائی اڈے کے ملٹری سیکشن پر  راکٹ حملہ  کیا  تھا ۔  تاحال طالبان  کے پاس بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت کا فقدان ہے ، پاکستان سمیت دنیا  کا کوئی  ملک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں  ،  پڑوسی ممالک بھارت اور چین نے برکس کے حالیہ سربراہی اجلاس کے ذریعے طالبان سے مطالبہ کیا   ہے کہ وہ تسلیم کیے جانے سے پہلے خواتین کے ساتھ سلوک اور ملکی سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنائیں لیکن رموز حکمرانی سے ناآشنا طالبان حکومت ،  علاقائی طاقتوں کو ، اپنی بربریت  دوگنی کرکے جواب دینے پہ  کمر بستہ نظر آتی ہے ۔ تاہم طالبان کا پاکستان کے ساتھ تعلقات  کو بگاڑنا  انکی حرماں نصیبی کی الگ جہت ہے   ،  کئی دہائیوں سے ، پاکستان کو اُن افغان طالبان کا سرپرست سمجھا جاتا  تھا ، جو پہلی بار 1996 میں اقتدار میں آئے ۔

عام  خیال  یہی تھا کہ پاکستان اس گروپ پر نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے ، نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملے کے بعد کئی افغان طالبان رہنماؤں نے پاکستان میں پناہ  لی تھی ۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے درمیان ، ٹی ٹی پی ، ابھری  جو افغان طالبان  سے نظریاتی تعلقات کے باوجود پاکستانی ریاست کے خلاف پُرتشدد مہمات میں ملوث رہی  ۔ پاک فوج نے ٹی ٹی پی کو ختم کرنے کے لیے  متعدد آپریشن کرکے کئی کماندروں کو افغانستان  دھکیل دیا  ۔  جب افغان طالبان نے 2021 میں کابل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تو پاکستان نے ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اپنے تاریخی تعلقات سے فائدہ اٹھانے کی امید ظاہر کی لیکن طالبان کے دور میں پاکستان کے اندر حملوں میں اضافہ نے  سب کو ششدر کر دیا  ۔  ماہرین کہتے  ہیں افغان طالبان  کے افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے مسلح  گروہوں کے علاوہ  داعش کی افزائش پاکستان کی قومی سلامتی کے لئے سنجیدہ خطرہ ہے ۔  وزارت داخلہ کے مطابق ، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے  نے گزشتہ سال کے پہلے 10 مہینوں میں 1500 سے زیادہ حملے کئے جن  میں کم از کم 924 افراد ہلاک ہوئے ،  مرنے والوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 570 اہلکار اور 351 شہری شامل ہیں ۔ اس سے یہی ظاہر یوتا ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان سے کشیدگی کے مضمرات اور اپنی ریاستی ذمہ داریوں کو سمجھنے میں غلطی کی ہے ، پاکستان جس نے  فطری اتحادی کے طور پر کابل میں طالبان کا خیر مقدم کیا تھا  ، افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے بعد مسلح بغاوتوں کا  ہنگام پاکستان کی طرف  منتقل ہوتا گیا  ۔ 2022 سے پاکستانی سیکیورٹی اور پولیس فورسز پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا جس میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی ۔چنانچہ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ قومی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان کو افغان طالبان کے خلاف  وہاں کے جمہوریت نواز مزاحمت  گروپوں  کی  پشت پناہی کرنے کے علاوہ  افغان سرزمین پر بمباری جاری رکھنا پڑے گی ۔ ہماری فوج پر ، ملک میں طویل المدتی سلامتی کے محافظ کے طور پر  عسکریت پسندی کا  قلع قمع کرنے اور بلوچستان میں چینی سرمایہ کاری والے اقتصادی منصوبوں سمیت ملک کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے ٹھوس کارروائیاں  کرنے کے لیے زبردست دباؤ ہے ۔ پاکستان طالبان کے خلاف اثر و رسوخ کے دیگر پہلوؤں کو بھی برقرار رکھے گا خشکی سے گھرے افغانستان  کی اقتصادی ناکہ بندی طالبان کو دردناک انجام تک پہنچانے کا وسیلہ بن سکتی ہے۔

دیگر کیٹیگریز: بلاگ
ٹیگز: