عسکری پلازہ توڑ پھوڑ کیس: عمر سرفراز چیمہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 20 جولائی تک توسیع
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ملک اشرف) چیئرمین تحریک انصاف کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع عسکری پلازہ میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے کیس میں سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پورا ہونے پر جیل میں پیش نہ کیا جاسکا۔
انسداد دہشتگردی عدالت کی ایڈمن جج عبہر گل خان نے مقدمے کی سماعت کی اور عمر سرفراز چیمہ کے جوڈیشل ریماںڈ میں 20 جولائی تک توسیع کا حکم دیا۔
اس موقع پر تفتیشی افسر نے استدعا کی کہ عمر سرفراز چیمہ کسی اور مقدمے میں جسمانی ریمانڈ پر پولیس حراست میں ہیں لہٰذا عدالت وارنٹ پر جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کا حکم دے۔
تفتیشی افسر انسپیکٹر اسلم نے عدالت کو کیس کے چالان کے متعلق آگاہ کیا۔
خیال رہے کہ سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کیخلاف مقدمہ نمبر 1271/23 تھانہ گلبرگ میں درج ہے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں عمر سرفراز چیمہ کو جیل میں بی کلاس کی سہولت کیلئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ربعیہ سلطان کی درخواست پر سماعت کی جہاں اے آئی جی لیگل جیل خانہ جات ڈاکٹر قدیر اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور پنجاب حکومت اور جیل خانہ جات کی جانب سے تحریری جواب جمع کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: جناح ہاؤس حملہ اور جلاؤ گھراؤ کیس، خدیجہ شاہ سمیت دیگر خواتین کی عدالت پیشی
اس موقع پر پنجاب حکومت کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمر سرفراز چیمہ کیخلاف سنگین نوعیت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے، قواعد و ضوابط کے تحت جیل میں بی کلاس کی سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔
اس کے جواب میں عدالت نے حکومتی وکیل کو قواعد کی متعلقہ شق کو پڑھنے کی ہدایت کی۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل ستار ساحل تحریری جواب کا جواز فراہم کرنے سے قاصر رہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے شوہر سابق گورنر پنجاب ہے، عسکری ٹاور حملہ کیس میں پولیس نے انسدادِ دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا، سابق گورنر ہونے کے باوجود درخواست گزار کے شوہر کو جیل میں بی کلاس نہیں دی گئی۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ جیل میں بی کلاس کیلئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کو درخواست دی لیکن شنوائی نہیں ہوئی لہٰذا عدالت سابق گورنر پنجاب کو جیل میں بی کلاس کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے۔
تمام دلائل کے بعد عدالت نے فریقین کے وکلاء کا مؤقف سن کر فیصلہ محفوظ کرلیا۔