سپریم کورٹ: مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی

Jun 06, 2023 | 12:50:PM
سپریم کورٹ: مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: 24news
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(امانت گشکوری) سپریم کورٹ آف پاکستان میں مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہو گئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ آڈیولیکس انکوائری کمیشن کے خلاف سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی پانچ رکنی لارجر بنچ کا حصہ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وکیل پیش نہ ہوا،الیکشن کمیشن کا فواد چوہدری کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم

ایڈوکیٹ حنیف راہی نے مؤقف اپنایا کہ  توہین عدالت کی درخواست مقرر نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، توہین عدالت کی درخواست بھی دیکھ لیں گے، توہین عدالت کی درخواست پر لگے اعتراضات ختم کیے جائیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس نکتہ پر آپ دلائل دیں گے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی کیس میں ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق بات کروں گا۔ چیف جسٹس نے نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست میں ایک کمی ہے، چیف جسٹس پاکستان آئینی آفس ہے جس کے اپنے اختیارات ہیں، اگر چیف جسٹس موجود نہ ہو تو پھر قائم قام چیف جسٹس کام کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرح گوگی کیس میں نیا موڑ آگیا،117 بینک اکاؤنٹس ہونےکا انکشاف

توہین عدالت کی درخواست سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست اعتراضات ختم ہونے کے بعد دیکھ لیں گے، جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا، اٹارنی جنرل صاحب چیف جسٹس پر الزامات لگا کر بنچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا جاسکتا، چیف جسٹس یا جج پر الزامات لگا کر اختیارات بھی کم نہیں کیے جاسکتے، چیف جسٹس غیر موجودگی میں اپنا قائم قام مقرر کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں بنچ پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، بنچ کی تشکیل پر حکومت نے اعتراض اٹھایا ہے، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیخلاف کیس سننے والے بنچ پر اعتراض ہے۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیسے مفروضہ پر بات کر سکتے ہیں کہ کیس میں چیف جسٹس سمیت دو ججز کا مفاد وابستہ ہے، ایگزیکٹیو سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، انکوائری کمیشن بنانے سے قبل ہم سے پوچھا تک نہیں گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا شاہ محمودقریشی کی نظر بندی ختم کرنے کا حکم

اٹارنی جنرل کا ججز کے ذاتی مفاد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ پہلے اپنی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ محض الزامات کی بنیاد پر ججز پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس منیب اختر  نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بارے پہلے بتائیں، حکومت کا کیا یہ کیس ہے کہ آڈیوز اوریجنل ہیں، کیا حکومت آڈیوز کی تصدیق ہونے اور درست ہونے کا موقف اپنا رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جرح کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آڈیوز کو مبینہ کہا ہے اور تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے جواب میں سوالات کا انبار لگاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ہیکر نے آڈیوز لیک کیں اور سینئر وزرا نے پریس کانفرنس کر کے انھیں پبلک کیا، وفاقی وزیر داخلہ نے آڈیوز لیکس سے متعلق پریس کانفرنس کی کیا یہ ان سے متعلقہ معاملہ تھا؟ آڈیوز کی تحقیقات کیے بغیر کیا میڈیا پر ان کی تشہیر کی جاسکتی ہے؟ آڈیوز کے درست ہونے یا نا ہونے سے پہلے ہی حکومت نے پبلک کر کے اپنا فیصلہ سنا دیا، تحقیقات کیے بغیر کیا اس طرح پریس کانفرنسز کرنی چاہیے تھیں؟  وزیر اعظم کو آکر کہنا چاہیے تھا کہ وزرا کی پریس کانفرنس سے تعلق نہیں؟ قانون کے مطابق کیا بغیر حقیقت جانے کوئی حکومت عہدیدار کسی جج پر الزام لگا سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:  انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے اعلیٰ سطح اجلاس، وزیراعظم نے بڑی منظوری دیدی

اٹارنی جنرل نے جسٹس منیب اختر کے سوالات میں جواب دیا کہ کسی وزیر کی پریس کانفرنس کا کابینہ کا فیصلہ یا بیان نہیں کہہ سکتے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اگر اپنی مرضی سے بات کرے تو یہ کابینہ کا بیان تصور ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ وزرا کے بیانات 9 مئی سے پہلے کے ہیں یا بعد کے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب حکومتی وزرا پریس کانفرنس میں سب کہہ چکے تو موجودہ درخواست کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے بعد حکومت نے انکوائری کمیشن قائم کیا، جس پر چیف جسٹس کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کتنا منفرد اور پیارا انصاف ہے کہ سب سے بڑی عدالت کے ججز پر الزام لگا دیا جائے، کیا انصاف دینے والوں پر اس طرح الزام تراشی کرنا انصاف کی بات ہے؟ پریس کانفرنس کر کے ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں کابینہ کے موقف کی دفاع کرونگا کسی انفرادی وزیر کا نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم میڈیا اور پیمرا سے جواب مانگیں گے کہ کیسے ججز پر الزامات کی تشہیر کی گئی، قرآن پاک بھی کسی پر الزام تراشی سے منع کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر  نے عدالتی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایسے نہیں ہوتا کہ جج پر کوئی اعتراض اٹھائے اور جج بنچ سے الگ ہوجائے، سوشل میڈیا کے منفی پہلو بھی ہیں، کوئی بھی انڈیبل ہیکر سے کہہ کر ججز کیخلاف جھوٹی خبریں لگوا سکتا ہے، لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئی، جس پر  اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملہ پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، اس طرح اداروں کیخلاف باتیں نہیں ہونی چاہیں۔

یہ بھی پڑھیں:  سرکاری ملازمین کا مطالبات کی منظوری کیلئے وزارت خزانہ کے سامنے  مظاہرہ 

چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا پتا چلا کہ انڈیبل کون چلا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیشن بنا کر یہ سب تحقیقات کروانا تھیں۔ جسٹس منیب اختر نے بات آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا کہ  بغیر تحقیق بیان دینے پر تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ پریس کانفرنس کس نے کی۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اتنے اہم ایشو پر کابینہ کا اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات یہاں بیان اہم ایشو پر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ انڈیبیل ٹویٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے؟ کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتا کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں؟  اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت چاہتی تھی کہ انکوائری کمیشن آڈیوز کی تمام تر تحقیقات کرے، نہیں معلوم کہ آڈیوز وٹس ایپ کال کی ہیں یا فون کال کی۔ جس پر  جسٹس منیب اختر  نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹو نے اختیارات کی تقسیم میں مداخلت کی، اب حکومت آکر کہہ رہی ہے کہ کچھ ججز کیس نہ سنیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو یہاں میں بیان کر رہا ہوں یہ وفاق اور حکومت کی رائے ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر وزیر خزانہ معیشیت بارے کوئی بیان دیں تو وہ حکومت کا پالیسی بیان نہیں ہوگا؟ 1996 میں محترمہ بے نظیر کی حکومت ختم ہوئی تھی، محترمہ بے نظیر کے دور میں سپریم کورٹ سمیت سینئر حکام کی کال ریکارڈنگ کا الزام لگا،  بے نظیر بھٹو کیس سننے والے سات میں سے چار ججز کے فون ٹیپنگ کی گئی تھی، جب کیس سپریم کورٹ میں آیا تو سات رکنی لارجر بنچ نے کال ریکارڈنگ سے متعلق فیصلہ دیا، بینظیر کیس میں 1996 کا سات ممبر بنچ کا فیصلہ غلط ہے؟ بے نظیر کیس میں بنچ پر اعتراض نہیں ہوا، آرٹیکل 4 سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے واضح ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے کےالیکٹرک کی نجکاری کیخلاف جماعت اسلامی کی درخواست نمٹا دی

اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت کا یہ کیس بالکل نہیں کہ کیس میں ججز کی بدنیتی شامل ہے، کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعہ تمام عوامل کا جایزہ لیا جائے گا، کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے، اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کیس کسی نے تو سننا ہے، اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا، وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراو کا ہے۔

چیف جسٹس نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل سنتے ہوئے کہا کہ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کاروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟ آپ نے میرے علاوہ دو اور ججز پر بھی اعتراض کیا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ باری باری سب پر اعتراض کیا جائے۔ جس پر  اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ درخواست ہے کہ بنچ پر اعتراضات سے متعلق دلائل پر غور کیا جائے۔ 

درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل جس فیصلے کا حوالہ دے رہے تو وہ اقلیتی رائے تھی، اگر کسی جج پر اعتراض ہو تو بھی اس پر کیس سننے کی ممانعت نہیں، حکومت انتخابات سمیت تمام مقدمات میں مدعی ہے اور خود ہی بنچ تشکیل دینا چاہتی ہے، حکومت نے کمیشن کے ٹی او آرز میں تو شامل نہیں کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کرنے والوں کی تحقیقات کی جائیں، آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں، تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعہ منظر عام پر لائی گئیں، افسوس یہ ہے کہ پیمرا کوئی چیک نہیں رکھ رہا، جسٹس محسن اختر کیانی نے آڈیو ویڈیو لیکس کی نشریات پر پابندی لگائی، پابندی کے باوجود آڈیو ویڈیو لیکس کو نشر کیا گیا اور پیمرا نے کوئی نوٹس نہیں لیا، عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرح گوگی کیس میں نیا موڑ آگیا،117 بینک اکاؤنٹس ہونےکا انکشاف

درخواست گزار کے وکیل شعیب شاہین 16 فروری سے اب تک کی وزراء کی پریس کانفرسز دیکھ لیں کہ کس کس طریقے سے ججز کے بارے بات ہوئی، پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے اور آئین کو معطل کر دیا، جو بھی کل چیف جسٹس ہو کیا حکومت اٹھ کر آجائے گی کہ اپنے جج کیخلاف آڈیو پر تحقیقات کرو، سپریم کورٹ ہی آخری امید ہے، سیاسی ورکرز کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ دیکھیں، ملک میں بنیادی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہو رہی ہے لوگ سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں، بزرگ لوگوں کو گھروں سے اٹھایا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہوکر ججز کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا، 

چیف جسٹس پاکستان نے سماعت کو اختتام کی طرف لاتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اور شعیب شاہین کے دلائل کو سراہتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل شعیب شاہین نے استدعاکی کہ حکم امتناع میں توسیع کر دیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکم امتناع تو برقرار ہے۔

وکلا کے بنچ پر اعتراض سے متعلق دلائل مکمل ہوتے ہی عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔