میرِ ثقافت اور  درباری کلرک

وارث پراچہ

Jun 06, 2023 | 15:00:PM

ثقافت کسی بھی معاشرے کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ اخلاقی و معاشرتی رسوم، علوم و فنون،  لوگوں سے میل جول اور انداز گفتگو ، شعراء کرام، موسم، کھیل کود ،شادی بیاہ و دیگر رسومات بھی ثقافت میں شمار ہوتی ہیں۔ لیکن ثقافت پر قدغن اس وقت لگی جب یہ راجاؤں کےمحلوں، درباروں سے ہوتی ہوئی کٹی پھٹی ہم تک پہنچی۔  ستم ظریفی دیکھیے جب کوئی میرِ صحافت اس کا ٹھیک سے حق ادا نا کر سکے تو وہ  قاری یہ پڑھنے کا حق بجانب ہے کہ وہ ریاستی میر عالم تو ہو  سکتا ہے  مگرمیر ِ صحافت یا میرِ ثقافت نہیں۔  


جب سے صدارتی ایوارڈ جھنگ سے ہوتا ہوا  شاہی درباروں کی تاریخ لکھنے والوں کے نام ہوا ہے ثقافت بھی تب سے مملکت خداداد  میں سکتے میں ہے اور ہچکولے کھا رہی ہے۔ پنجاب اور پنجابی ثقافت سے جڑے ہوئے لوگوں کیلیے نیک شگون یہ ہے کہ یہاں کہ باسی مذہب میں بھی ثقافت کے قائل ہیں لیکن درباری تاریخ لکھنے والے شاہ اور خود کو راجہ پورس کی پوشاک پہنا کر راج سنگھاسن پر بیٹھنے کے خواب دیکھنے والوں نے کوئی خاص کردار نہیں کیا ثقافت کی بقا کیلئے۔ 


تاریخ گواہ ہے کہ شاہ کے وفا دار بھی شاہ ہی کہلائے ہیں، درباری تاریخ لکھنے والوں کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ  انہوں نے تاریخ لکھتے وقت راجوں، مہاراجوں کو خوش کیا اپنے سے شاہ کا ٹیگ چسپاں کروانے میں کامیاب رہے۔ موجودہ دور میں بھی یہی جبر ہو رہا ہے مجھے یہ پڑھ کر فرحت(سکون) نصیب ہوتی ہے جب کوئی صاحب علم یا صاحب کتاب  قرطاس کی حد تک یہ باتیں تو مانے لیکن اس کو عملی جامہ نا پہنائے تو اس  کا صاحب ایوارڈ ہونا بھی مشکوک ہوگا۔ 

ضرور پڑھیں :’توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میرے لئے بہت بڑا صدمہ ہیں‘
کتنا بڑا المیہ ہے کہ ثقافتی فراڈیے کے نام سے دوام حاصل کرنے والا کردارصدارتی ا یوارڈ یافتہ شاہوں کے مطابق صاحب بصیرت ہی رہا ہے،  اگرچہ اس کی  نظر میڈیکل کی روح سے  کمزور ہی کیوں نا ہو۔ قلمی کمزوری کا  ذکر فی الحال ضروری نہیں ۔ شاہی دربار میں کلرک سے جعل سازی کے ذریعے نوکر شاہی بننے کا سفر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حال ہی میں چیف نوکر شاہی کے دفتر میں ہونیوالی انکوائری نے مغل شاہی کلرک  کو  شاہی حمام میں ننگا  کر دیا ہے، مگر ہزارہ کے رانجھے کا کیا کیا جائے  کہ ہیر  کی محبت میں ثقافتی قیدو کو پھروصل پورہ  (سرگودھا ) میں ثقافتی آبیاری کے نام پر ایک بار پھر تباہ ہونے کیلئے بلا لیا ہے۔ کشمیری بھاٹ بھی کم نہیں رہے ،  دامن کے کلام سے سیاسی نعرے کشید کرتے کرتے خود کو مزاحمت پرست قرار دینے کیلئے پر تول رہے ہیں۔

 میڈیائی پٹوار خانے میں بیٹھا ریاستی  بھاٹ  کس طرح  کہاں کہاں اپنی کم علمی کا مظاہرہ کرتا ہے اس کیلئے دور اندیشی ضروری نہیں۔ عدالتی نظائر کا قتل اس دور   میں معمول بن چکا ہے ۔ جہاں عبوری اپنے آپ کو ہر چیز سے عبور  پر  تشبیہ دیتے ہیں۔ کس منصف کا  دروازہ کھٹکھٹایا جائے کہ یہاں زہد کے مارے  محسن کی بارگا ہ میں خود ہی اپنی زیب تن  نوکر شاہی کی پوشاک اتارنے کا ارادہ کر چکے ہوں ۔ شنید ہے کہ شاید زہد ، بھاٹوں اور  شاہوں  کی تثلیث اس  بار اس خطے پر رحم کرے، اور کسی ثقافتی فراڈیے نیکوکار کو دوبارہ حملہ آور نہیں ہونے دے گی، اور آئندہ سے ہر کوئی مقام ابرار سے عبرت حاصل کرے گا اور راول کے نام سے بسائے جانے والے شہر  بھیس بدلنے کا کاروبار بند ہوگا ،میرِ صحافت یا میرِ ثقافت ریاستی میر عالم بننے کے بجائے انہی  سیاسی نعروں سے عقل بھی کشید کریں۔  اب یہ نوازنے والے کو دیکھنا ہے کہ وہ نوازنے سے با وقار ہوگا یا بے وقار۔ نوکر شاہی اور اس کے ہم زلف کی کہانیاں برسوں پر محیط ہیں جو زیب قرطاس ہوتی رہیں مگر ہر دور میں کوئی نا کوئی رنگیلا شاہ  اور اس کے بھاٹ اور نوازنے والے بے وقار لوگ ان کی ڈھال بنتے رہے۔

نوٹ :ادارے کا بلاگر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ 

مزیدخبریں