(24 نیوز)ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس وقت حکومت کے اعصابوں پر بانی پی ٹی آئی سوار ہیں۔انصار عباسی کی خبر کے مطابق بانی پی ٹی کو غیر معینہ مدت تک کیلئے جیل میں رکھنے کیلئے حکومت نے سکیم تیار کر رکھی ہے۔انصار عباسی کے بقول بانی پی ٹی آئی کو عدالتوں سے ریلیف تو مل رہا ہے ۔لیکن حکام کے پاس سابق وزیراعظم کو غیر معینہ مدت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کیلئے آپشنز موجود ہیں۔ایک کے بعد ایک کرکے عمران خان کیخلاف مقدمات ختم ہو رہے ہیں جس سے پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں میں اُمید پیدا ہوئی ہے کہ پارٹی کے سینئر ترین رہنما چند ہفتوں میں جیل سے باہر آسکتے ہیں لیکن سرکاری ذرائع کی سوچ اِس سے مختلف نظر آتی ہے۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کا کہنا تھا کہ جس وقت 1971 کے واقعے کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کی متنازع ٹویٹ نے ایف آئی اے کو بانی پی ٹی آئی اور دیگر کیخلاف ایک اور مقدمہ قائم کرنے پر غور کا موقع فراہم کیا۔ وہیں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کیخلاف نیب والے توشہ خانہ ریفرنس دوم دائر کرنے کیلئے درست وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس دوم کے حوالے سے نیب کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور اب وہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کیخلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ریفرنس درست وقت پر دائر کیا جائے گا۔اب اِس خبر کے بعد یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ حکومت کی بانی پی ٹی آئی کو لے کر سوچ کیا ہے۔سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی سلاخوں کے پیچھے تھے اور اُن کی جماعت انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری۔وہ جیل میں رہ کر دن بدن مقبول ہورہے ہیں ۔ایسے میں اُن کو مزید جیل میں رکھ کر کیا حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں مار رہی؟اُن پر سائفر توشہ خانہ اور190 ملین پاؤنڈ کا کیس بنایا گیا لیکن اِن کی بنیادیں کھوکھلی ثابت ہوئی ۔اب ایک کیس عدت میں نکاح کا ہے لیکن حکومت کے رویے سے یہ لگتا ہے کہ بہت جلد اِس کیس میں بھی بانی پی ٹی آئی بری ہوجائیں گے تب ہی 1971 واقعے کی ٹویٹ کو بنیاد بنا کر اُن پر ایک اور کیس کھڑا کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
ظاہر ہے حکومت کا مقصد یہ ہے کہ وہ جیل سے باہر نہ آئیں کیونکہ اگر وہ باہر آتے ہیں تو اِس سے پی ٹی آئی مضبوط ہوگی اور پی ٹی آئی کا دھاندلی کا مؤقف اور بھی مضبوط ہوجائے گا کیونکہ بانی پی ٹی آئی باہر آکر بقول اُن کے جو اُن کا مینڈیٹ چوری ہوا اُس کی واپسی کے حصول کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔یہی عوامل حکومت کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ کسی طریقے سے بانی پی ٹی آئی کو جیل سے باہر آنے سے روکیں۔ دوسری جانب سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی فوج کو گھسیٹ کر سیاست کر رہی ہے۔ایک بیان میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ کہ بانی پی ٹی آئی چار سال وزیراعظم رہے لیکن حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کھول کرنہ دیکھی، آج وہ بدنیتی کی بنیاد پر حمودالرحمان کمیشن کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ عمران خان خود کو شیخ مجیب اورآرمی چیف کویحییٰ خان کہہ رہے ہیں اگر ایسا ہے تو بتائیں کہ آج کی مکتی باہنی کون ہے؟لیگی رہنما جاوید لطیف بھی پی ٹی آئی کے بڑھتے اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر فرماتے ہیں کہ ریاست کمزور ہو گئی ہے بانی پی ٹی آئی بھاری ہو گئے ہیں۔
جاوید لطیف کے بقول پی ٹی آئی کا ریاست مخالف بیانہ بھاری پڑ رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئے جارھانہ بیانیے سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اب آج بانی پی ٹی آئی کی 1971کے حوالے سے متنازع ٹویٹ کا پی ٹی آئی رہنما دفاع کرتے نظر آئے۔
دیکھا آپ نے صرف یہی نہیں . پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ ایکس پر اداروں کیخلاف مواد نشر کیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ادارے ایس آئی ایف سی کی ناکامی سے توجہ ہٹانے کیلئے پی ٹی آئی کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔اب ایسے میں عرفان صدیقی کے بیان کو دیکھیں تو یہ بات درست لگتی ہے کہ پی ٹی آئی اداروں کو کبھی حمود الرحمان کمیشن تو کبھی دیگر معاملے میں گھسیٹ کر سیاست کر رہی ہے ۔ اب تحریک انصاف نے تو حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پر ایف آئی اے کے نوٹس کے معاملے کو پارلیمان میں اُٹھانے اور عدالت کے روبرو چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔بانی چیئرمین تحریک انصاف کے ایکس اکاؤنٹ پر حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے مندرجات پر مبنی ویڈیو کے پوسٹ کیے جانے پر ایف آئی اے نے نوٹس لیا تھا۔پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے ایف آئی اے سے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ کی نقل بھی مانگ لی ہے۔عمر ایوب خان نے ایف آئی اے کو نوٹس کا جواب تحریری طور پر بھجوا دیا ہے۔ جواب ڈاکٹر بابر اعوان کی وساطت سے بھجوایا گیا۔عمر ایوب کے وکلاء نے ایف آئی اے کو جواب دیا ہے کہ ایف آئی اے نے ہمارے مؤکل عمر ایوب خان کو ایک ہتک آمیز نوٹس بھجوایا جس میں مبہم مشکوک اور غیرقانونی سوالات پوچھے گئے۔ نوٹس سقوطِ ڈھاکہ سے جڑے واقعات سے متعلق ہے جس پر حکومتِ پاکستان نے کمشن قائم کیا۔تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ اس کمیشن نے 1972 میں عبوری جبکہ 1974 میں مکمل رپورٹ ریاست کو جمع کروائی جسے نہ تو مسترد کیا گیا نہ ہی اس کے مندرجات کی تردید کی گئی۔ کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ میں جنرل یحییٰ خان اور ہتھیار ڈالنے والے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے بیانات بھی قلمبند کیے اور انہیں رپورٹ کا حصہ بنایا۔حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کابینہ ڈویژن میں موجود ہے۔عمر ایوب نے جواب میں لکھا ہے کہ ایف آئی اے نہ تو تاریخ دانوں پر مشتمل ایک محکمہ ہے نہ ہی سپریم کورٹ اور نہ ہائیکورٹس سے بالا کوئی ادارہ ہے۔ ایف آئی اے کے اس نوٹس کا واحد مقصد ملک کے مقبول ترین سیاسی قائد عمران خان اور ان کی جماعت کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب کو نشانۂ انتقام بنانا ہے۔ ایف آئی اے جواب کی تیاری کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی نقل فراہم کرے۔اب لگ ایسا رہا ہے کہ ایک طرف تحریک انصاف اداروں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے سیایسی مقاصد حال کر رہی ہے اور دوسری جانب اداروں سے بات کرنے کا بھی کہہ رہی ہے۔سابق صدر عارف علوی کہتے ہیں گھر کے مالک سے بات کروں گا۔ اگر چوکیدار مالک ہے تو اس سے بات کروں گا۔
اب بظاہر لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف پچ کے دونوں جانب کھیل رہی ہے ایک طرف اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی اور دوسری جانب مذاکرات کی بات کرنا پی ٹی آئی کی دوہری پالیسی کی غمازی کر رہا ہے۔