(ویب ڈیسک) پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی سمیت غذائی اور دیگر مسائل بھی درپیش ہیں ایسے میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں آخری زرعی شماری 2010 میں کروائی گئی تھی جبکہ قومی اور صوبائی سطح پر سرکاری محکموں میں لائیوسٹاک کی تعداد اور دودھ و گوشت کی پیداوار سے متعلق حقیقی اعداد وشمار دستیاب ہی نہیں ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق زرعی یونیورسٹی اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اشتراک سے منعقدہ زرعی شماری ورکشاپ میں ماہرین نے اظہار خیال کرتے ہوئے لائیوسٹاک کی تعداد میں اضافے کی شرح آبادی کو درکار غذائیت کے تناسب سے ناکافی قرار دیدی ، پاکستان میں اب تک کی چھٹی اور آخری زرعی شماری 2010 میں ہوئی ، بھارت 11 مرتبہ یہ عمل کر چکا ہے ، علاوہ ازیں لائیوسٹاک کی تعداد میں اضافے کی شرح بھی آبادی کو درکار غذائیت کے تناسب سے ناکافی ہے۔
پاکستان میں اب تک صرف 6 بار زرعی شماری کروائی گئی اور اسے کرائے بھی 14 سال بیت چکے ہیں لیکن بھارت میں یہی کام 11 مرتبہ ہو چکا ہے ، سیکرٹری لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ محمد مسعود انور نے ورکشاپ سے خطاب میں لائیوسٹاک اعدادوشمار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں لائیوسٹاک کی تعداد میں اضافے کی شرح 2.7 فیصد ہے جبکہ غذائیت کی کمی سے متاثرہ افراد 40 فیصد ہیں۔ انہوں نے دودھ اور گوشت کی پیداوار کے حوالے سے اعدادوشمار میں تصحیح کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لائیوسٹاک میں صرف جانوروں ہی نہیں بلکہ اس سے منسلک دیگر عوامل بشمول افرادی قوت و دیگر امور کو بھی سامنے لانا ہو گا۔