(24 نیوز)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کاکہناتھا کہ 1977 میں بھی تحریک چلی ،میرے والد اسکی قیادت کر رہے تھے دھاندلی کے خلاف میرا آج کا نظریہ نہیں ہے،چھوٹا تھا تو مفتی صاحب کے ساتھ تحریک چلائی جیلیں بھر گئیں ہماری گھٹی میں شامل ہے دھاندلی منظور نہیں۔
تفصیلات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام لائرز فورم کا اہتمام کیا گیا، فورم میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خصوصی شرکت کی،فورم میں مولانا امجد، اسلم غوری، سید محمود میاں، حافظ نصیر احمد، حافظ غضنفر عزیز، جمال عبدالناصر، حافظ عبد الرحمن، پروفیسر ابوبکر چودھری، عابد اشرف گجر، شاہد اسرار صدیقی، حافظ زین العابدین، عبد المجید ڈوگر ایڈوکیٹ سمیت وکلا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
مولانا فضل الرحمان نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے ہم ریاست کی ضرورت کو سمجھیں ملک اور قوم کے مزاج کو سمجھیں،ہمارے ملک کا آئین ملی میثاق کی حیثیت رکھتا ہے،اس وقت کی سیاسی قیادت نے جس طرح فراخدلی اور گنجائش کا مظاہرہ کیا۔
ان کاکہناتھا کہ فیلڈ مارشل ایوب کے خلاف تحریک شروع کی گئی تو سیاست اس وقت دو حصوں میں تقسیم تھیں،ایوب خان سے مذاکرات ہوئے اور 2 باتوں پر اتفاق ہوا،نمبر ایک قوم کو ووٹ کا حق دو، دوسرا ملک میں پارلیمانی نظام ہو،ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ تھا صدارتی طرز حکومت ہو،1972 میں جب عبوری آئین دیا گیا تو وفاق میں صدارتی اور صوبوں میں پارلیمانی حکومت رکھی گئی،لیکن جب 1973 میں مستقل آئین بنا تو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی موقف بدل دیا ،ذوالفقار علی بھٹو نے آئین میں تمام صوبوں کو برابر کی اہمیت دی تھی۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ پارلیمنٹ میں تمام مکاتب فکر لوگ تھے یہ ایک قومی مفاہمت ہے جسکی بنیاد پر ہم ایک قوم ہیں،اگر آئین نہیں ہے تو کوئی صوبہ ملک کے ساتھ کمٹمنٹ نہیں کرے گا،بدقسمتی سے ملک میں آئین بھی محفوظ نہیں رہا ،ان کاکہناتھا کہ 1977 میں بھی تحریک چلی ،میرے والد اسکی قیادت کر رہے تھے دھاندلی کے خلاف میرا آج کا نظریہ نہیں ہے،چھوٹا تھا تو مفتی صاحب کے ساتھ تحریک چلائی جیلیں بھر گئیں ہماری گھٹی میں شامل ہے دھاندلی منظور نہیں،اس وقت ہم نے 31 مطالبات منوائے معاہدہ طے ہوگیا تھا،5 جولائی الیکشن جمہوریت آئین کو اپنے ساتھ لے گیا،اس آئین کی اہمیت ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ ہم سیاسی لوگ بیٹھتے ہیں تو قائدین کی خدمت میں ایک سوال پیش کرتا ہوں کہ ہم نے آمریت سے جمہوریت کی بہت جنگ لڑی ہے ایک سوال بتائیں کہ جہاں آج ہم کھڑے ہیں وہاں جمہوریت مضبوط ہے یا آمریت،آج بھی میں یہی سوال کر رہا ہوں مسلم لیگ ن سے بھی پیپلز پارٹی سے بھی،اگر 2018 میں دھاندلی ہوئی تھی تو اس وقت بھی دھاندلی ہوئی ہے،یہی سوال تحریک انصاف کے ساتھ کرتا ہوں کہ 2018 میں بھی دھاندلی نہیں ہوئی تو اس وقت بھی نہیں ہے،ہم اصول پر کھڑے ہیں یہی اصول ہے اس وقت بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی دھاندلی ہوئی ہے،جب سب اکٹھے ہوں تو اختلاف ہوتے ہیں شدت بھی آجاتی ہے مگر وہ سب عارضی ہوتا ہے،لیکن اب تو کاغذ پھینکے جاتے ہیں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں یہ کیوں ہورہا ہے۔
ان کاکہناتھا کہ ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ سخت جنگ لڑی ہے انتہائی تلخیاں اس کے باوجود وہ لوگ تشریف لائے انکو ویلکم،ہمارا ایک اپنا سیاسی کلچر ہے ہماری اقدار ہیں ہم نے انکو زندہ رکھنا ہے،جب اس طرح کے واقعات ہونگے تو ہماری نسلیں کیا سیکھیں گے ،آئین کی بالادستی ہونی چاہئے،ہمارا آئین اصول طے کرتا ہے،آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے ستون ہوتے ہیں کوئی ستون گرتا ہے تو آئین گرتا ہے، اسلام آئین کا اولین ستون ہے یہ ملک سیکولر سٹیٹ نہیں ہے ایک مذہبی سٹیٹ ہے سٹیٹ کا مذہب اسلام ہے یہ میں نہیں آئین کہتا ہے،دوسرا ستون جمہوریت ہے تیسرا ستون پارلیمانی طرز حکومت ہے،یہاں پر صرف پارلیمان کا حکومت چلے گا،چوتھا ستون وفاقی نظام ہے ،اگر یہ چار چیزیں چھن ہوجاتا ہے تو آئین منحرف ہوجاتا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ اگر آج نیا آئین بنانے کی کوشش ہوگی تو بچا کھچا بھی نہیں رہے گا،یہ سادہ باتیں نہیں ہے انکو گہرائی کے ساتھ سوچناہوگا،یہی ہمارا اختلاف رائے ہے کہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے یا اسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے،قانون سازی ایوان نے کرنی ہے یا پیچھے سے ڈکٹیٹ ہونا ہے،میں عام باتیں نہیں کررہا میں گواہ ہوں سب چیزوں کا۔
ان کاکہناتھا کہ میں شدت والی سیاست کا قائل نہیں ہوں،ہمیں بیرونی دنیا کے اثرو رسوخ سے نکلنا چاہئے،دو ذریعوں سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو کنٹرول کیا جاتا ہے،عالمی اداروں اور معاہدات کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے،ہمارا آئین پاکستان کو خودمختار ریاست قرار دیتا ہے،اگر عالمی برداری ایک قانون پاس کردے تو جو آپکے ملک کے قانون سے متصادم ہو تو پھر آپکے ملک کا قانون ختم ہوجاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہناتھا کہ ہماری سیاست،معیشت خودمختاری بیرون ہاتھ چلی گئی ہے،ہمارا بجٹ وہ بناتے ہیں آئے روز آئی ایم ایف کو جواب دینا پڑتا ہے،آج تک ہم اپنے وسائل پر ملک چلانے کے قابل نہیں ہے،ہمسائے ممالک ہمارے بعد آزاد ہوئے وہ ہم سے آگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عام تعطیل کا اعلان