نثار ، مشاہد ، عباسی

حروف : نوید چودھری 

Mar 06, 2025 | 19:55:PM
نثار ، مشاہد ، عباسی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ن لیگ کے3 “ باغی “ کرداروں چودھری نثار ، مشاہد حسین اور شاہد خاقان عباسی کی اپنی اپنی کہانی ہے،  جرنیلوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے چودھری نثار ،شر یف برادران کے دست راست بن کر اہم ترین وزاتوں پر رہے،  چودھری نثار ،مشرف کے مارشل لا  میں نظر بندی کے دوران  کچھ مراعات حاصل کرنے کے سبب  مشکوک ہوگئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ معاملہ ٹل گیا ، 2014 کے عمران، قادری دھرنوں کے دوران نثار وزیر داخلہ تھے،وزیر اعظم نواز شریف کو بتایا گیا کہ وزیر داخلہ  ڈبل گیم کررہے ہیں، وہ ایک طرف تو عمران خان ، طاہر القادری کے خلاف پریس کانفرنسز  کررہے ہیں لیکن دوسری جانب دونوں کو ہلہ شیری بھی دےرہے ہیں اور پیغام بھجوا رہے ہیں’’ کام چک کے رکھو “ یعنی اور اودھم مچاؤ ، یہ دھرنے اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کرا رہی تھی، نواز حکومت کو چھوٹی سے چھوٹی اتحادی جماعتوں کے تعاون کی اشد ضرورت تھی ایسے نازک موقع پر چودھری نثار اپنے جیسے فوج کے ایک اور لاڈلے پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کے اکسانے پر ان سے لڑنا شروع ہوگئے ،کوئی نہیں جانتا کہ یہ کوئی سکرپٹ تھا یا واقعی دونوں میں کوئی پھڈا تھا ،بہر حال یہ مرحلہ بھی گزر گیا لیکن بد گمانیاں جڑ پکڑ چکی تھیں ، اونٹ کی کمر پر آخری تنکا بنی گالہ میں پیش آنے والا واقعہ ثابت ہوا جس کا ذکر ریحام کی کتاب میں بھی ہے،کہا جاتا ہے کہ عمران خان کا ایک دوست دور ان محفل’’ اوور ڈوز “سے فوت ہوگیا ، اسے  ایک مقامی ہسپتال لایا گیا ،موت کی تصدیق ہوجانے پر افراتفری میں میت لاہور بجھوانے کا فیصلہ کیا گیا، ایک سول ایجنسی اس واقعہ کی مانیٹرنگ کررہی تھی اس نے کارروائی کرنا چاہی تو  افسروں کو وزیر داخلہ کا حکم آگیا کہ کچھ نہیں کرنا، حالات کا دھارا اس طرف جارہا تھا کہ اگر اس وقت قانونی کارروائی ہو جاتی تو عمران خان کے سیاسی مستقبل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا ، بعد میں سارا معاملہ وزیر اعظم نواز شریف کے نوٹس میں لایا گیا تو وہ سخت ناراض ہوئے ، پھر اس کے بعد ہر گزرتا دن چودھری نثار کے لیے گنجائش کم کرتا چلا گیا ،بچاو کے لیے  کوئی چارہ نہ رہا تو چودھری نثار نے نواز شریف پر سخت تنقید کرکے فیس سیونگ کی ناکام کوشش کی،یہ ماننا ہوگا کہ ن لیگ  میں شمولیت سے فراغت تک ان کی اکڑ نہیں ٹوٹی۔

چودھری نثار کی طرح مشاہد حسین بھی نواز  ،شہباز کے قریبی حلقے میں شامل رہے،مشاہد حسین کھل کے کہتے ہیں کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گہرے روابط ہیں ، ایسا ہو بھی تو  اس سے ن لیگ کو کیا فائدہ ہوا ؟ مشاہد حسین کسی بھی وقت کسی بھی پارٹی میں ہوسکتے ہیں لیکن وہ کس کے ساتھ ہیں یہ یقین  سے نہیں کہا جاسکتا ، 1999 میں نواز شریف کا اقتدار ختم ہونے پر مشاہد فوجی آمر جنرل مشرف کی آنکھوں کا تارا بن گئے ، نواز شریف جلا وطنی کاٹ کر واپس آئے تو مشاہد کو پھر ن لیگ میں لاکر سینٹر بنوا دیا ، عمران دور میں جن دنوں پورا شریف خاندان زیر عتاب تھا، اس وقت مشاہد حسین  پارلیمنٹ اور تقریبات میں ہنستے مسکراتے پھرتے تھے ،ایسے ہی کرداروں کو غیر معمولی اہمیت دینے کے سبب شریف خاندان کے بارے میں ناقدین یہ کہتے ہیں کہ ان کو مخلص حامیوں سے زیادہ چاپلوس پسند ہیں ، مشاہد حسین نے ن لیگ کا رکن سینٹ ہوتے ہوئے ڈٹ کر عمران خان کی حمایت شروع کردی ،معلوم نہیں کہ ان کو ڈیوٹی دی گئی یا انہوں نے اپنے طور پر کوئی غلط اندازہ لگا لیا تھا  ،کبھی کہتے ٹرمپ آتے ہی فون کرئے گا اور عمران خان کو چھڑائے گا ، یہی توقع طیب اردگان سے بھی باندھی مگر اب تک کچھ نہیں ہوا ۔البتہ مشاہد خود نکرے لگ گئے ، مشاہد کی دوسرے ممالک کے متعلق سرگرمیاں بہت معنی خیز ہیں ، ایران، امریکہ اور ساتھ ہی چین کے بھی’’ دوست “ ہیں ، لیکن اصلیت عام آدمی کے علم میں بھی ہے۔

تیسرا کردار شاہد خاقان عباسی ہیں، ان کا خاندانی پس منظر فوجی اور کاروباری ہے ، جنرل باجوہ نے نواز شریف کو نااہل کرایا تو شریف خاندان نےشاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا کر بہت عزت دی ، بعد میں ڈبل گیم شروع ہوگئی، جنرل باجوہ مزید توسیع چاہتے تھے اور دباؤ ڈال رہے تھے ،حیرت انگیز طور پر شاہد خاقان عباسی ان کے وکیل بن گئے ، یوں لگ رہا تھا کہ  اسٹیبلشمنٹ شاہد خاقان عباسی کو پھر بڑے عہدے پر لانے کا لارا لگا چکی ہے،ایک بار وزیر اعظم بن جانے والے کے دل میں پھر وہی کرسی سنبھالنے کی امنگیں جاگ جانا فطری امر  ہے،ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنی  نئی ٹانگہ پارٹی بنا لی،شاید وہ  اسی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ  باجوہ نہ سہی ان کے بعد والے سہی ، کبھی نا کبھی کوئی نہ کوئی موقع ضرور دیں  حالانکہ ایسا کوئی چانس  نظر دور دور تک نظر  نہیں آرہا ، عام تاثر یہی ہے کہ  انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر استعمال کیا جارہا ہے، لگتا ہے کہ  شاہد خاقان عباسی صورتحال کا درست اندازہ نہیں لگا سکے لیکن اب کوئی راستہ بھی نہیں،اسی ذہنی کیفیت میں  اب وہ کہہ رہے  ہیں کہ مجھے افسوس ہے کہ میں ن لیگ میں کیوں رہا؟ 
’’ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا “

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو زرداری سے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماوں کی الگ الگ ملاقاتیں