فیض آباد دھرنا کیس, چیف جسٹس کا انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر اظہار مایوسی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کا کام انکوائری کرنا تھاجو نظر نہیں آ رہا، سمجھ نہیں آ رہا یہ کیسی رپورٹ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بنچ کا حصہ ہیں،سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی ہے آپ نے وہ رپورٹ دیکھی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہیں دیکھی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تب تک رپورٹ کا جائزہ لے لیں، اس کیس کو آخر میں سنتے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا،وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دھرنا انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی عدالت میں موجود ہیں، عدالت کا رپورٹ سے متعلق کوئی سوال ہو تو کمیشن کے سربراہ سے پوچھا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ کے غیر مستند ہونے پر برہمی کا اظہار کیا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کا کام انکوائری کرنا تھا جو نظر نہیں آ رہی، سمجھ نہیں آ رہا یہ کیسی رپورٹ ہے، کوئی فائنڈنگ نہیں دی، ہمارا وقت کیوں ضائع کیا، انکوائری کمیشن نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی، نہ ہی ملک کو ہونے والے نقصان پر کچھ لکھا، شہادتوں اور ثبوتوں کو سامنے لانا کمیشن کا کام تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کس طرح کی رپورٹ کمیشن نے بنائی ہے، کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہے؟ ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، آگے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کے مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے فیصلہ نکالے، مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ یہ کیا طریقہ کار ہے؟،دوران سماعت فیض آباد دھرنا کمیشن ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا کہ کمیشن کے سربراہ اختر علی شاہ کو آج کورٹ آنے کا کہا گیا تھا، سربراہ کمیشن کی جانب سے بیمار ہونے کا بتایا گیا ہے۔
بعد ازاں کمیشن کی رپورٹ پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی برہم ہوگئے، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے؟ کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی؟ کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کر دی، پاکستان کا کتنا نقصان ہوا لیکن اس کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں، آگ لگاؤ ،مارو یہ حق بن گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہیں؟،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو سبق نہیں سیکھتے انہیں سبق سکھایا جانا چاہیے، ایک تو چوری پھر سینہ زوری، ریاست کو اپنی رٹ منوانا پڑے گی، لوگوں کی املاک کو آگ لگائی گئی، اس بیچارے کا تو کوئی قصور نہیں تھا، آگ لگانے والے کو ہیرو بنا کر تو نہ پیش کریں،ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے، کہتے ہیں بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟ جب پاکستان بنا تھا، بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ کراچی میں چھوٹے سے معاملے پر کسی کی موٹرسائیکل روک کر آگ لگا دی جاتی ہے،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں، پنجاب حکومت ذمہ دار ہے۔
گزشتہ روز فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی جانب سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کراوائی گئی، انکوائری کمیشن کی رپورٹ بذریعہ اٹارنی جنرل آفس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔
فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ 150 صفحات پر مشتمل ہے، انکوائری کمیشن نے 33 گواہان کے بیانات کی روشنی میں رپورٹ تیار کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن کو کسی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے صرف بطور ثالث کردارادا کیا اور انہیں ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی اجازت حاصل تھی,انکوائری کمیشن نے رپورٹ میں نتائج اخذ کرنے کے ساتھ 33 سفارشات بھی پیش کی ہیں۔