دمہ کا عالمی دن ہر سال مئی کے پہلے منگل کو مرض کے خاتمے کے عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے، رواں برس یہ دن 7 مئی کو منایا جا رہا ہے، عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں دمہ کے مرض سے بچاؤ اور علاج معالجہ کا شعور اُجاگر کرنا ہے, اسی سلسلے میں ہمارے سینئر رپورٹر بابر شہزاد ترک نے معروف پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جعفر خان کیساتھ ایک نشست رکھی اور وہ تمام سوال کیے جو ایک عام شہری جاننا چاہتا ہے ۔
دمہ کیا ہے ؟
دمہ پھیپھڑوں کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں، مریض کو سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے معروف پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جعفر خان کہتے ہیں کہ دمہ سے پھیپھڑوں کی نالیوں میں سوزش کی وجوہات تاحال معلوم نہیں ہوسکیں تاہم رائج طریقۂ علاج پر عمل سے مریض صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، دمہ کے مریضوں کیلئے ہر موسم ہی مشکل ہوتا ہے، لیکن سردی، پولن یا اور کسی وائرل انفیکشن کے دوران دمہ کے مریضوں کو انتہائی احتیاط کرنی چاہیئے، انہیلر کا استعمال دمہ کے مریض کے لئے انتہائی موزوں عمل ہے، اس حوالے سے ڈر کی کیفیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
دمہ کی تشخیص کیسے کی جائے ؟
طبی ماہرین کے مطابق میڈیکل ہسٹری، جسمانی معائنہ اور ٹیسٹ، دمہ کی تشخیص کے 3 بنیادی طریقہ کار ہیں، میڈیکل ہسٹری کے ذریعے دمہ کی تشخیص، الرجی کی معلومات، سانس کا انفیکشن، نفسیاتی دباؤ وغیرہ کا پتا چلتا ہے جبکہ طبی معائنے میں عام طور پر سانس کی نالی، سینے اور جلد کا معائنہ کیا جاتا ہے اِس کے علاوہ ناک کا بہنا، ناک کی سوجن، جلد کی بیماری، ایگزیمہ وغیرہ جو دمہ سے تعلق رکھتی ہیں اس کا معائنہ کیا جاتا ہے اور دمہ کی تشخیص کیلئے لیور فنکشن ٹیسٹ، الرجی ٹیسٹ اور سپیرومیٹری ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔
دمہ کی علامات کیا ہیں ؟
دمہ کے مرض کی سب سے پہلی اور بڑی علامت کھانسی ہے، مرض معمولی کھانسی سے شروع ہوتا ہے اور یہ کھانسی شدت اختیار کرلیتی ہے، اِس دوران مریض کو سانس لینے میں شدید تکلیف، سانس کا پھولنا، مسلسل کھانسی کے دورے پڑنا، پیشاب میں زیادتی، رات میں کھانسی زیادہ ہونا، نیند میں دشواری اور بے چینی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرچہ یہ علامات الرجی سے بھی ملتی جلتی ہیں مگر شدید کھانسی قابل تشویش ہے، طبی ماہرین کے مطابق کچھ مریضوں میں یہ سب علامات ایک ساتھ ہی ظاہر ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں یہ علامات کم ظاہر ہوتی ہیں، بروقت علاج مرض کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔
دمہ کی وجوہات اور عوامل کیا ہیں؟
حال ہی میں کئے گئے ایک طبی سروے کے مطابق دنیا بھر میں 30 کروڑ کے قریب لوگ دمہ کا شکار ہیں، جن میں 14 کروڑ کے قریب خواتین بھی شامل ہیں، دمہ کو پھیلانے والے عوامل میں ہوا، ماحولیاتی و فضائی آلودگی، دھواں، دھول مٹی، کاکروچ، سرد ہوا، پھیپھڑوں یا ہوا کی نالی کا انفیکشن، سگریٹ، یا مچھر مارنے والے کیمیکل کا دھواں، حیوانی فضلہ، مختلف نوعیت کے عطر، ڈپریشن اور ایسی غذا کا استعمال جن میں سیلفائیڈ موجود ہو شامل ہیں
روزمرہ زندگی کے دوران دمہ میں شدت کیوں آتی ہے ؟
جینیاتی عوامل، الرجی، دھواں خصوصاََ تمباکو نوشی کا دھواں، پولن، گرد اور مخصوص عطریات و دہگر بیرونی عوامل دمہ کی بیماری کی شدت بڑھا سکتے ہیں، کیونکہ اِن عوامل میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو سانس کی نالیوں میں سوزش بڑھاتی ہیں۔
زندگی کے مختلف پہلو اور دمہ کا مریض
دمہ کی بیماری سے متاثرہ افراد کو بعض اوقات ازدواجی تعلقات میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خصوصاََ سرد مقامات پر رہائش پزیر اور علاج میں غفلت کے مرتکب مریضوں کی جانب سے ازدواجی زندگی میں مشکلات کی شکایات عام ہیں، تاہم طبی ماہرین کے مطابق دمہ کا مریض اگر احتیاط اور علاج کا دامن سختی سے تھام کر رکھے تو ازدواجی تعلقات، کھیلوں کی سرگرمیوں سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں سے دیگر عام افراد کی طرح دمہ کا مریض بھی لطف اندوز ہو سکتا ہے
کیا دمہ جان لیوا ہو سکتا ہے ؟
دمہ کی ایک قسم، جو عمر رسیدہ افراد میں ہوتی ہے، جان لیوا ہو سکتی ہے، اگر دمہ کا خیال نہ رکھا جائے تو ایسی علامات سامنے آ سکتی ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے اور یہ جان لیوا ہو سکتا ہے، کسی شدید دورے کے دوران سانس کی نالیاں اِس حد تک سکڑ سکتی ہیں کہ مریض کو ری ایکشن ہو سکتا ہے اور سانس لینا نا ممکن ہو جاتا ہے، بچوں، عمر رسیدہ افراد اور سانس کی انفیکشن سے متاثرہ افراد میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
دمہ کے ساتھ بہتر زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟
طبی ماہرین کے مطابق دمہ کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا عین ممکن ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ چند قوانین کو زندگی کا حصہ بنا لیا جائے، صحت مند زندگی کیلئے باقاعدگی سے علاج جاری رکھا جائے اور ایسے عوامل سے بچا جائے جو بیماری میں شدت کی وجہ بنتے ہیں،
دمہ کے مریض اور حکومت کا کردار
پاکستان جیسے ترقی پذیر اور معیشت کو مختلف چیلنجز کا سامنا رکھنے والے ملک میں دیگر بیماریوں کی طرح دمہ کے مریض بھی اِن ہیلرز اور دمہ ادویات کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کے باعث پریشان رہتے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے معروف معالج ڈاکٹر عابد حسین عابدی کے مطابق دمہ کے مریض ایلوپیتھک کی مہنگی ادویات اور اِن ہیلرز کو خریدنے میں مشکلات کے باعث اُن کے کلینک کا رُخ کرتے ہوئے دمہ کا مناسب قیمت کا طریقہ علاج دریافت کرتے ہیں، حکومت کو چاہیئے کہ اِن ہیلرز جیسی زندگی بچانے والی ادویات و آلات کی قیمتوں میں روز بروز ہوش رُبا اضافہ روکنے پر خصوصی توجہ دے___!