پی ٹی آئی استعفوں کا معاملہ، جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں: اسلام آباد ہائیکورٹ

Oct 06, 2022 | 10:29:AM

(24 نیوز) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے کہ پہلے اسمبلی جائیں اور پھر یہ درخواست لے آئیں، عدالت درخواست منظور کر لے گی، یہ عدالت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہیں ہوگی، جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں۔

یہ بھی پڑھیں:منی لانڈرنگ کیس: عدالت کا حمزہ شہباز کو 8 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم

یہ عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے: چیف جسٹس

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا استعفوں کی منظوری میں طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا، یہ عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے، درخواست گزاروں کو پہلے اپنی نیک نیتی ثابت کرنی ہو گی، کیا یہ درخواست گزار پارٹی پالیسی کے خلاف جائیں گے ؟ اس عدالت کو معلوم تو ہو کہ کیا یہ پارٹی کی پالیسی ہے ؟ درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ پارلیمنٹ کا سیشن اٹینڈ کرتے رہے، حلقے کے عوام نے اعتماد کر کے ان لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا، یہ سیاسی تنازعے ہیں اور ان کے حل کیلئے پارلیمنٹ موجود ہے، کیا یہ تمام ارکان اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف جائیں گے؟۔

اسپیکر کو ڈائریکشن نہیں دے سکتے: اسلام آباد ہائیکورٹ

 جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ لوگ پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر تو ان کی درخواست قابل سماعت نہیں کیونکہ پارٹی تو کہتی ہے کہ ہم نے استعفے دیے، اگر یہ پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں پھر تو تضاد آ جاتا ہے، یہ عدالت اسپیکر کو ڈائریکشن تو نہیں دے سکتی، آپ کو دیگر ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہئے، کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا درخواست گزار کہتے ہیں کہ انہیں پارٹی نے استعفے دینے پر مجبور کیا ؟ اگر ایسا ہے تو یہ ارکان تو پارٹی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں۔

اسپیکر نے ملی بھگت سے استعفے منظور کیے: وکیل علی ظفر

وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر نے یہ تعین کرنا تھا کہ یہ استعفے دینے کا مقصد کیا تھا، اسپیکر نے دیکھنا تھا کہ استعفے واقعی دیے گئے یا سیاسی مقصد تھا، آڈیو لیک سے ثابت ہوتا ہے کہ اسپیکر نے ملی بھگت سے ایسے استعفے منظور کیے، پارٹی سمجھتی ہے کہ استعفوں کی منظوری کیلئے طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، طریقہ کار پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے تمام ممبران اب بھی ایم این ایز ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ آئے عدالت آئے یا نہیں ؟ اس پر وکیل بیر سٹر علی ظفر نے کہا کہ پٹیشنرز اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف عدالت نہیں آئے۔

جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے انکو پارلیمنٹ میں بیٹھنا چاہیے: چیف جسٹس

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس شرط پر استعفے دیے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے، اسپیکر نے تمام استعفی منظور نہیں کیے اور صرف 11 استعفے منظور کیے، ہم کہتے ہیں کہ دیے گئے استعفے مشروط تھے، اگر تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تو شرط بھی پوری نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے انکو پارلیمنٹ میں بیٹھنا چاہیے، جب تک استعفے منظور نہیں ہوتے انکو پارلیمنٹ میں موجود ہونا چاہیے، یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے حلقے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں، یہی پارٹی کے موقف میں تضاد ہے، اسی لئے نیک نیتی ثابت کرنے کا کہا۔

اسمبلی میں واپس جانا دوسرا آپشن ہے: وکیل بیرسٹر علی ظفر

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر دیگر ارکان پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوتے تو شاید یہ عدالت درخواست منظور کر سکتی، ایک طرف پارلیمنٹ میں بیٹھ نہیں رہے دوسری طرف نشستیں واپس چاہتے ہیں۔ وکیل علی طفر نے کہا کہ اسمبلی میں واپس جانا دوسرا آپشن ہے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نہیں، اسمبلی جانا دوسرا آپشن نہیں ہے، یہ عدالت پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دے گی، آپ کی پارٹی نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، عدالتیں گزشتہ 70 سال سے بہت سے سیاسی کیسز میں ملوث رہیں، سیاسی کیسز میں مداخلت سے اس ادارے کو بھی نقصان پہنچا، بتا دیں کہ کیا یہ ارکان پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں ؟ اگر وہ پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں آئے تو درخواست منظور نہیں ہوگی، اس عدالت نے آج تک کبھی پارلیمنٹ یا اسپیکر کو ڈائریکشن نہیں دی۔

سیاسی تنازعات عدالتوں میں لانے کی بجائے پارلیمنٹ میں حل کریں: اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کیلئے احترام ہے جو 70 سال سے کسی نے نہیں دی، اپنے سارے سیاسی تنازعے پارلیمنٹ میں حل کریں، ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔ وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے، ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ تصور کیوں نہ کرے کہ اسپیکر پی ٹی آئی کو دوبارہ اسمبلی واپس جانے کا موقع دے رہے ہیں ؟ سیاسی تنازعات عدالتوں میں لانے کی بجائے پارلیمنٹ میں حل کریں۔

اگر استعفے واپس لے لئے جائیں تو واپسی کا سوچا جاسکتا ہے: وکیل علی ظفر

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر استعفے واپس لے لئے جائیں تو پھر پی ٹی آئی اسمبلی واپسی کا سوچ سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس مرحلے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آڈیو لیک آئی ہے اور گیارہ ارکان کو نکال دیا گیا ہے۔

جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں: چیف جسٹس اطہر من اللہ

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کی بہت بے توقیری ہوگئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں، جب استعفے دیدیے تو اسپیکر نے اپنی مرضی سے منظور کرنے ہیں، ملک میں غیریقینی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے، معیشت کا یہ حال اسی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے ہے، باتوں سے نہیں ہو گا اپنے عمل سے کر کے دکھائیں، اس عدالت نے اس پارلیمنٹ کو مسلسل احترام کیا ہے، جائیں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں، پہلے اسمبلی جائیں اور پھر یہ درخواست لے آئیں عدالت درخواست منظور کر لے گی۔

پارلیمنٹ کے ساتھ 70 سال سے بہت ہو چکا، اب ختم ہونا چاہیے: اسلام آباد ہائیکورٹ

 وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہم اسمبلی واپس نہیں جا سکتے انہوں نے ہمیں نکال دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہیں ہوگی، جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمنٹ میں واپس جانا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور نشست بھی باقی رہے، کیا عدالت یہ درخواست منظور کر کے حلقوں کے عوام کو نمائندگی کے بغیر چھوڑ دے، پارلیمنٹ کے ساتھ 70 سال سے بہت ہو چکا، اب ختم ہونا چاہیے۔

یہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے پھر جا سکتے ہیں: وکیل علی ظفر

وکیل علی ظفر نے کہا کہ درخواست گزار اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پھر یہ عدالت یہ درخواست بھی منظور نہیں کر سکتی، درخواست گزار اسپیکر کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم اسپیکر کے پاس تو نہیں جا سکتے، یہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے پھر جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آپ کی سیاسی ڈائیلاگ کیلئے سہولت کاری تو نہیں کریگی۔

سیاسی غیریقینی ملکی مفاد میں نہیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے۔ وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو مانتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوئی کہے کہ عدالت کو مانتا ہوں اور عدالت کو جو مرضے آئے کہتا رہے، سیاسی غیریقینی ملکی مفاد میں نہیں، یہ عدالت درخواست منظور کیوں کرے ؟ جب تک پارلیمنٹ کے احترام کا اظہار نہیں کرینگے درخواست منظور نہیں ہو سکتی، پارلیمنٹ مانتے بھی نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بھیج دیں، یہ عدالت آپکو کل تک کا وقت دے دیتی ہے، کل پارلیمنٹ واپس چلے جائیں یہ عدالت آپکی درخواست منظور کر لے گی۔

ایک ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے: چیف جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے، سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں، سیاسی تنازعات اس عدالت کیلئے نہیں، یہ عدالت مداخلت نہیں کریگی، یہ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دے گی، سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں واپس جا کر سیاسی عدم استحکام کو ختم کرے، سیاسی عدم استحکام سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی تو پی ٹی آئی کو موقع دے رہے ہیں کہ آئیں اور عوام کی خدمت کریں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالتی سوال پر بعد میں جواب دونگا، اسپیکر نے استعفے منظور کرتے وقت طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں کیا، درحقیقت اسپیکر نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے استعفے منظور ہی نہیں کیے، اسپیکر نے استعفے منظور کرنے کا فیصلہ بھی خود نہیں کیا، لیکڈ آڈیو سامنے آ چکی ہے عدالت اسکا ٹرانسکرپٹ دیکھ لے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ان کا اپنا فیصلہ تھا ؟ کیا قاسم سوری کا استعفے منظور کرنے کا فیصلہ انکا اپنا فیصلہ تھا ؟ ہر ایک کو عوام سے مخلص ہونا چاہیے، یہ سیاسی عدم استحکام عوام کے مفاد میں نہیں ہے، اگر کوئی پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتا تو کیا عدالت سیاسی عدم استحکام کا حصہ بن جائے ؟ ہمارا ماضی بھی کوئی اتنا اچھا نہیں ہے۔

 چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ملکی معیشت اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خراب ہوئی ہے، ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے اور وہ دہرانا نہیں چاہیے، منتخب نمائندے پارلیمنٹ کا احترام نہیں کر رہے جو انکو کرنا چاہیئے، اسی سیاسی جماعت کی درخواست پر اس عدالت نے ایک فیصلہ دیا تھا۔

وکیل علی ظفر نے بتایا کہ عدالت نے استعفے کی منظوری کا طریقہ کار طے کر دیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان ارکان نے تو جینوئن استعفے دیے تھے یا اپنے لیڈر کی خوشنودی کیلئے ؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے استعفے دیے کہ تمام 124 استعفے منظور کیے جائیں، اب 11 کو منتخب کرکے استعفے منظور کیے گئے، استعفے درست طور پر منظور نہیں ہوئے اس لئے پارٹی اب استعفے نہیں دینا چاہتی، پارٹی کی پالیسی ہے کہ ہم اب ایم این ایز برقرار ہیں۔

 چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی پارٹی کی پالیسی یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتی، کیا عدالت درخواست گزاروں کو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرانے کیلئے درخواست منظور کرے ؟ اسمبلی کا ممبر ہو کر اسمبلی سے باہر رہنا اس مینڈیٹ کی توہین ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ درخواست گزار بیان حلفی دینے کو تیار ہیں کہ وہ اپنے حلقے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کرینگے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کی پارٹی کی لیکن یہ پالیسی نہیں ہے، تضاد آ جاتا ہے، آپ اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر واپسی چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ علی ظفر صاحب آپ پہلی رکاوٹ ہی دور نہیں کر پا رہے، آپ یہ ثابت کریں کہ غلطی ہو گئی تھی واپس پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں، یہ بتا دیں کہ آپکو کسی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا، پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا پارلیمنٹ اور عوام کے مفاد میں ہے، عوامی بہترین مفاد میں یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام نہ ہو، عوامی مفاد یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کے پی ٹی آئی کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے کا موقع دینے پر سراہتی ہے، اسپیکر نے پی ٹی آئی کو سیاسی افراتفری ختم کر کے واپس پارلیمنٹ جانے کا موقع دیا، کوئی سیاسی جماعت پارلیمنٹ سے بالاتر نہیں، اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں ہے، آج بھی کوئی سول سپرمیسی کی بات نہیں کر رہا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی

مزیدخبریں