(24 نیوز) فیصل واوڈا تاحیات نااہلی کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں اس لیے نااہلی کا فیصلہ نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے، اثاثے چھپانے یا غلطی کرنے پر آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی ایک مدت تک ہوتی ہے۔
نثار کھوڑو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ فیصل واوڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے۔ فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے نہ حقائق چھپائے نہ کوئی بدیانتی کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی کب جمع کرائے ؟ وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی 7 جون 2018 کو جمع کرائے اور ان پر اسکروٹنی 18 جون کو ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی کب جمع کرایا تھا ؟ وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا کہ امریکی شہریت چھوڑ دی ہے، امریکن قونصلیٹ جا کر نائیکاپ کینسل کرایا۔
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ آپ نے کس تاریخ کو امریکی سفارت خانے میں جا کر نیشنیلٹی منسوخ کرائی؟ وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ امریکی سفارت خانے جا کر کہہ دیا تھا کہ نیشنیلٹی چھوڑ رہا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا آپ نے ایمبیسی جا کر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ کینسل کر دو ؟ وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے آپ نے زحمت ہی نہیں کی کہ دوہری شہریت کا معاملہ ختم کریں ؟ وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ نادرا نے 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت کینسل ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ جب آپ نے امریکی سفارت خانے جا کر شہریت کینسل نہیں کرائی تو نادرا نے سرٹیفکیٹ کیسے جاری کر دیا ؟ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا کی امریکی شہریت کینسل نہیں ہوئی تھی، جس پر وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ اصل سوال تاحیات نااہلی کی ڈیکلریشن کا ہے جو کمیشن نہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بد دیانت یا بے ایمان نہیں کہا جا سکتا، زندگی بھر کیلئے کسی کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں، عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے، فیصل واووڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے۔
وکیل فیصل واووڈا نے دوہری شہریت کے تحت نااہلی کی استدعا کر دی اور موقف اپنایا کہ دوہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا اطلاق ہوتا ہے، دوہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا کے وکیل کو الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق مزید تیاری کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کیس کی سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔