(24 نیوز)نیب ترامیم کے حوالے سے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ،عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کر دی،خواجہ حارث آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی ،جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ اس خصوصی بنچ کا حصہ ہیں۔ اس خصوصی بنچ کے سامنے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: شہباز گل سے برآمد ہونیوالا سیٹلائٹ فون عمران خان کا نکلا
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ان ترامیم میں 500 ملین کا بینچ مارک بنا دیا گیا،چیف جسٹس نے نیب پراسیکوٹر سے استفسار کیا کہ اب تک کتنے مقدمات عدالتوں سے واپس آئے ہیں۔پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 219 مقدمات واپس آچکے ہیں، شاید اب تک تعداد 280 ہوگئی ہے اعداد و شمار مقدمے کے آغاز میں لئے گئے تھے،تمام مقدمات نیب کو واپس آرہے ہیں جنہیں کمیٹی دیکھے گی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم میں بھی ایسا ہی تھا نام اور رقم نہیں بتائی جا سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ایمنسٹی سکیم بھی فراڈ ہے ؟ ایمنسٹی سکیم کے زریعے پیسے کو وائٹ کرنا تو بڑے عرصے سے چل رہا ہے۔خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں کہہ رہا ہے مگر کرپشن کی رقم کا ایشو مختلف ہوتا ہے،ایمنسٹی سکیم کے زریعے رقم ڈکلئیر کرنے والوں کو کچھ نہ کہنا نہ پوچھنے کا لکھا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جعلی اکاؤنٹس میں بھی رکشے والے اور ایسے لوگوں کے اکاؤنٹس سے اربوں نکلے تھے،نئے قانون کے مطابق احتساب عدالت اور نیب نے ہاتھ کھڑے کر دے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ترامیم کو گزشتہ حکومت نے شروع کیا تھا ؟ باتوں سے باتیں نکل رہی ہیں،دو ماہ میں ان ترامیم کی ڈرافٹنگ کا کریڈٹ وزیر قانون کو جاتا ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کچھ کریڈٹ سابقہ حکومت کو بھی جاتا ہے جو خود اس عمل میں شامل رہی اور پھر چیلنج کر دیا۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی،خواجہ حارث آئندہ سماعت پر بھی دلائل جاری رکھیں گے۔