فیصلے میں بتایا تھا اگر کوئی منتخب نمائندہ استعفا دے تو منظوری کا پراسس کیا ہوگا: اسلام آباد ہائیکورٹ
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست پر ڈپٹی اسپیکر کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں تو ہمارا فیصلہ موجود ہے ۔ ہم نے لکھا تھا کہ سیاسی کیسز میں ہم مداخلت نہیں کریں گے ۔ہم نے فیصلے میں لکھا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ہی یہ کرے گا، عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔
یہ بھی پڑھیں:جھوٹی پراپیگنڈا مہم: عمران خان کا ملوث کرداروں کو بھرپور جواب دینے کا اعلان
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے کبھی پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، ہم بھی پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ مرحلہ وار استعفے منظور کریں، اگر کرنے ہیں تو 123 اکٹھے منظور کریں۔
عدالت نے کہا کہ اس وقت آپ کے 34 ممبران تھے جنہوں نے استعفے دیے تھے ۔ ہم نے اپنے فیصلے میں بتایا تھا کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ استعفا دے تو منظوری کا پراسس کیا ہو گا۔ وکیل فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر اس وقت بطور قائم مقام اسپیکر کام کر رہا تھا جس نے 123 استعفے منظور کیے۔ اس کے خلاف کسی ایک ممبر نے بھی اس کو چیلنج بھی نہیں کیا۔
فیصل چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی نے استعفے دیے صرف 11 کے منظور کیے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر کو ہدایت نہیں دیں گے۔ ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا یا تو وہ ہر ممبر کو بلاتے اور ان کے استعفے منظور کرتے۔ ڈپٹی اسپیکر نے استعفے منظور کرنے کے اصول پر عمل نہیں کیا۔ ڈپٹی اسپیکر ایک ایک رکن کو بلاتے، الگ بٹھا کر پوچھتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کا استعفوں کی منظوری سے متعلق فیصلہ موجود ہے۔ آپ اسپیکر کے سامنے یہ فیصلہ رکھیں کہ ہمارا استعفا ایسے منظور کریں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ اقلیت کے بنائے اسپیکر ہیں، ہم ان کے پاس نہیں جاتے۔ عدالت نے کہا کہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر کے پارلیمنٹ کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔ اسپیکر نے 11 ارکان کے استعفے اپنی تسلی کر کے ہی قبول کیے ہوں گے۔ اسپیکر کے اس اطمینان کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ پارٹی سے کہیں ایک ایک رکن کو اسپیکر کے پاس بھیجیں ۔ اپنے ارکان کو اسپیکر کے پاس بھیجنے میں تو ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں ہچکچاہٹ ہے تو ہی عدالت میں آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین اور عدالتی فیصلے کے برخلاف ڈپٹی اسپیکر اجتماعی طور پر استعفے قبول نہیں کر سکتا تھا۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ڈپٹی اسپیکر نے استعفوں کی اجتماعی منظوری طے شدہ طریقے کے مطابق نہیں کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک اسمبلی اراکین کے استعفے قبول نہ ہو جائیں کیا ان کی ڈیوٹی نہیں کہ لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں ؟ استعفی دینے والا ہر رکن انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے۔ارکان اسمبلی اکیلے نہیں وہ نمائندہ ہیں اپنے حلقے کے تمام عوام کے۔ سب پابند ہیں آئین اور قانون پر عمل کرنے کے۔
وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرچکے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا نوٹیفیکیشن غیر آئینی ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کی کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لارجر بنچ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کرانے ہیں تو پورے 123 حلقوں میں کروائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو پتا ہے الیکشن میں کتنا خرچ آتا ہے ؟ عوام اپنے نمائندے 5 سال کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ جب دل کیا استعفیٰ دیا پھر الیکشن لڑلیا۔
عدالت نے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے خارج کر دی۔