(24 نیوز)ویلکم ،گڑ ٹو سی یو کے بعد آج سپریم کورٹ میں شارٹ اینڈ سویٹ آرڈر کی گونج سنائی دی ۔ ایسے الفاظ ہمیشہ سے متنازعہ رہے ہیں اور آج بھی یہ بیان بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے یہ بحث زور پکڑ رہی تھی کہ عدلیہ اور سیاست دانوں کی لڑائی اب ان کی نہیں رہی بلکہ اب یہ لڑائی عدلیہ اور ریاست کی ہو چکی ہے۔جس کی واضع مثالیں بھی سامنے آرہی ہے۔عدالتین ملزمان کو رہا کرتی ہے لیکن ان کے آڈر ہوا میں اڑا دیے جاتے ہیں ۔پروگرام’10تک ‘میں میزبان ریحان طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چئیرمین پی ٹی آئی کا توشہ خانہ کیس ہو یا سائفر کا کیس ،شروع میں یہ سنائی دیتا تھا کہ ملزم بیمار ی کا بہانہ بنا کر عدالت پیش نہیں ہوتا تھا لیکن اب یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ججز بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹیوں پر چلے جاتے ہیں یا سخت فیصلہ سنانے کے بعد ان کے بینچز تبدیل کر دیے جاتے ہیں ۔سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات جنہوں نے گزشہ جمعہ سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ وہ دلاور نہیں دلیر ہیں اس لیے انہیں لائٹ نہ لیا جائے۔لیکن پیر کو جب چئیرمین تحریک انصاف کی ضمانت کی سماعت ہونا تھی تو معلوم ہو کہ جج صاحب اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے4 روز کی رخصت پر چلے گئے۔جاتے جاتے ان کی جگہ کسی بھی دوسرے جج کی ان کیسز کی سماعت کے لیے ڈیوٹی کا نوٹیفکیشن بھی نہیں کیا گیا،یہ سارا معاملہ ہی خاصہ تشویشناک تھا۔اسی طرح پرویز الہیٰ کے کیس میں لاہور ہائی کورٹ کےجسٹس امجد رفیق نے واضع اھکامات دیے۔پرویز الہیٰ کو گھر تک بحفاظت پہنچانے کا بھی حکم دیا۔لیکن چوہدری پرویز الہیٰ کو راستہ میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار ڈنڈا ڈولی کرتے ساتھ لے گئے۔ جس پر آئی جی پنجاب اور اسلام آباد سمیت دیگر سینئر افسران توہین عدالت بھگت سکتے ہیں۔اسی طرھ آج بھی اسلام آباد ہائی کورت کی جانب سے پرویز الہیٰ کی رہائی کے اھکامات جاری کیے ہیں لیکن ابھی تک ان کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ان تمام حالات واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدلیہ اور ریاست کے درمیان ایک سرد جنگ شدت سے جاری ہے۔اسی دوران آج سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جس کے جلد سنائے جانےکا امکان ہے۔آج کی سماعت جب شروع ہوئی تو جسٹس منصور نے پوچھا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل بیرون ملک ہیں، ان کا جواب جمع کرادوں گا۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟ نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں، ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکاؤکس جانب ہے، مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پر آ چکا ہے، نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدمات دوسرے فورمزکو بھجوائے جائیں؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کے پاس مقدمات دوسرے اداروں کوبھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیارنہیں، اس پر جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہیں ہے مقدمات نیب سے ختم ہوکرملزمان گھرچلے جائیں، نیب کے دفتر میں قتل ہوگا توکیا معاملہ متعلقہ فورم پرنہیں جائے گا؟ مقدمات دوسرے فورمزکوبھجوانے کیلئے قانون کی ضرورت نہیں، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے۔ جسٹس منصور نے مزید کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججزکو نیب قانون میں استثنیٰ نہیں ہے، آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج برطرف ہوسکتا ہے ریکوری ممکن نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذرہوں، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیرقانونی منتقلی ہو،کارروائی ہونی چاہیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوشحال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔دوران سماعت جسٹس منصور نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے،اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کیخلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پرسزائیں موجود ہیں، جسٹس منصور نے کہا کہ سزائیں تو سول افسران اورعوامی عہدیداروں کیخلاف بھی موجود ہیں، کیا کرپٹ آرمی افسرکا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسرفوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہوتونیب قانون کی زد میں آتا ہے۔جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کوکہہ سکتی ہےکہ آپ نے چالاکی اوربدنیتی پرمبنی قانون بنایا؟ سپریم کورٹ کے پاس اگرپارلیمنٹ کی قانون سازی چھیڑنے کا اختیار نہیں تواس کے ساتھ چلنا ہوگا، اس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ پارلیمنٹ کو سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہے، پارلیمنٹ ماضی سے اطلاق کا قانون بناکرجرم ختم نہیں کرسکتی، ایسے تو 1985 میں سزا پانے والا مجرم آکرکہے گا میری سزا نہیں رہی اور دوبارہ ٹرائل کرو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قانون کو واضح ہونا چاہیے تھا، جب قانون واضح نہ ہوتو اس کا حل کیا ہوتا ہے؟ کیا مبہم قانون قائم رہ سکتا ہے؟ اس پر جسٹس منصور نے کہا کہ چیف جسٹس کے سوال کو آگے بڑھاؤں توکیا سپریم کورٹ قوانین واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے؟جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ تو بہت سپریم ہے، اگرپارلیمنٹ کو قوانین پر دوبارہ غورکی درخواست کریں توبیچ کے وقت میں کیا ہوگا؟ اگر عدالت کو قانون میں سقم مل جائے توکیا پارلیمنٹ کو واپس بھیجیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔بعد ازاں بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ وقت کم ہے، امید ہے جلد شارٹ اینڈ سویٹ آرڈر جاری کردیں۔ مختصر حکمنامہ جاری کریں گے اور اس حوالے سے تاریخ کا جلد اعلان کریں گے۔بیرسٹر اعتزاز احسن نے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے،ن لیگ انتہائی خوفناک گیم کھیل رہی ہے،مزید وہ کیا کہتے ہیں دیکھیے اس وڈیو میں
ن لیگ کاانتہائی خطر ناک کھیل؟عمران خان کے حوالے سے کیا چاہتی ہے؟اعتزازاحسن نے خطرے سے آگاہ کردیا
Sep 06, 2023 | 09:52:AM
Read more!