فوج کا سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں،ڈی جی آئی ایس پی آرکی پریس کانفرنس کس کیلئے پیغام تھا ؟

Sep 06, 2024 | 09:20:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)لیفٹینٹ جنرل(ر) فیض حمید کی بڑی گرفتاری کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی بھی بڑی پریس کانفرنس  بھی دیکھنے کو ملی ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے دہشتگردی اور اُن کے سہولت کاروں کیخلاف کارروائی پر جہاں میڈیا اور عوام کو آگاہ کیا وہیں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور اَِن کے سیاسی گٹھ جوڑ پر بھی اہم باتیں کی ۔جیسا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور اِن سے تحقیقات کے نتیجے میں مزید انکشافات سامنے آئیں گے جس کے بعد ایک مخصوص سیاسی جماعت کیلئے بھی مشکل کھڑی ہوسکتی ہے ۔اور آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے فیض حمید کی گرفتاری پر کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹاپ سٹی کیس کا معاملہ وزارت دفا ع کے ذریعے پاک فوج کو بجھوایا گیا۔اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے ایک اعلی سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا تاکہ اِس کیس کی مکمل تحقیقات کی جاسکیں ۔ٹھوس شواہد پر مبنی تحقیقات ہونے کے بعد پاک فوج نے آگاہ کیا کہ متعلقہ آفسر نے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کی ۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب ڈی جی آئی ایس پی آر نے جنرل (ر) فیض حمید اور اِن کے سیاسی گٹھ جوڑ سے متعلق معنی خیز بات کی ۔جب صحافی نےا ُن سے سوال پوچھا کہ جنرل فیض حمید کو اِس عہدے پر لانے کیلئے جنرل نوید مختار اور جنرل (ر) باجوہ کا کیا کردار ہے؟ تو جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا۔آئی ایس آئی کا باس وزیراعظم ہوتاہے جس کا آپ نے ذکر نہیں کیا۔
اب سیاسی مبصرین ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر رائے دے رہے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آ رنے اشاروں ہی اشاروں میں بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کا عندیہ دے دیا ہے ۔دیکھا جائے تو اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کے باس تو بانی پی ٹی آئی تھے ۔اور جنرل (ر) فیض حمید جو اچھا برا کرتے تھے اُس کے برابر کے ذمہ دار بانی پی ٹی آئی ہی تھے ۔یعنی اگر سابق ڈی جی آئی ایس آئی سیاست میں دخل دے رہے تھے تو بانی پی ٹی آئی کا کام تھا کہ اُن کو روکیں لیکن بانی پی ٹی آئی تو جنرل (ر) فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے ۔اِسی لئے تو بانی پی ٹی آئی پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ فیض حمید کو آرمی چیف بنا کر اپنےا قتدار کو طول دینا چاہتے تھے ۔اب دیکھا جائے تو ڈی جی آئی ایس پی آر بھی دبے لفظوں میں یہی کہہ رہے ہیں کہ جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے سیاست میں مداخلت کی تو اُس وقت کےوزیر اعظم نے اُس پر کیا کردار ادا کیا؟اب ظاہر ہے بانی پی ٹی آئی پر تو فیض حمید کے ساتھ گٹھ جوڑ کا بینیفشری ہونے کا الزام ہے ۔جنرل (ر) فیض حمید پر تو یہ الزام بھی لگتا تھا کہ وہ تحریک انصاف کے رہنماؤں سے رابطے کرتے تھے اور جماعت کے ہر کام میں مداخلت کیا کرتے تھے ۔اور رؤف حسن بھی اِس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپن کا فیض حمید صاحب سے سلام دعا والا تعلق اور رابطہ ہوتا تھا ۔
اب یہاں سادہ سا سوال ہے کہ اگر سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو تحریک انصاف میں دلچسپی نہیں تھی تو پھر وہ اِس جماعت کے رہنماؤں سے کس حیثیت میں رابطے کیا کرتے تھے؟بہرحال پاک فوج نے اپنے سابق افسر کیخلاف آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر کارروائی کی ۔ڈی جی آئی ایس پی آر یہ بھی کہتے ہیں کہ جیسے فیض حمید کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ۔ہم اُمید کرتے ہیں کہ اِسی طرح کی بلاتفریق کارروائی باقی اداروں کو بھی ترغیب دے گی کہ اگر ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے کوئی بھی اپنے منصب کو استعمال کرے گا تو اس کو وہ بھی جواب دے کریں گے۔

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: