عمران خان کا کورٹ مارشل؟پی ٹی آئی کا ایکشن پلان کیا ہے؟بڑا انکشاف

Sep 06, 2024 | 09:36:AM

Read more!

اِس وقت ملک کی معاشی اور سیکیورٹی کی صورتحال ابتر ہے ۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمائندے اپنی حکمت عملی سے معاشی اور سیکیورٹی صورتحال کو مضبوط بنائیں ۔اگر معاملات مزید بے قابو ہوتے ہیں تو پھر ممکن ہے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے ۔اور تیسری قوت ملکی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لے۔اس بات کے امکانات اس لئے بھی بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہماری سیاسی لیڈر شپ آپس کی سیاسی اُلجھنوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔کسی کو مخصوص نشستیں چاہئے۔کسی کو آئین سازی کرکے مخالفین کا راستہ روکنا ہے۔جبکہ ملکی مسائل سنگین ہورہے ہیں۔اگر پارلیمنٹ کمزور ہوتی ہے تو پھر ملکی نظام مفلوج ہوجائے گا ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کسی کو تو ملکی معاملات سنبھالنے ہیں۔ پھر یہ کام تیسری قوت ہی کرے گی۔اور ہماری سینئر قیادت کو اب اِس بات کا ادراک ہورہا ہے کہ اگر سیاسی رسہ کشی سے باہر نہ نکلا گیا تو پھر شاید جمہوریت خطرے میں پڑجائے ۔اِسی لئے نوازشریف ہوں چاہے مولانا فضل الرحمان یا پھر محمود اچکزئی وہ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی حدود میں رہتے ہوئے ملکی ترقی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔اور حکومت کا ساتھ دیں ۔یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی اب فارم 45 اور فارم 47 سے آگے کی سوچ رہے ہیں ۔اب وہ کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہی پارلیمان کے فیصلے لینے ہیں ۔پارلیمنٹ کی حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے ۔مولانا فضل الرحمان یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاستدان کو سائڈ لائن کیا جارہا ہے جو نہیں کیا جانا چاہئے ۔
پروگرام’10 تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان ایک طرح سے مایوسی کا ہی اظہار کر ہے ہیں کہ عوامی فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئے لیکن پارلیمنٹ کمزور ہورہی ہے۔اور ظاہر سی بات ہے پارلیمنٹ سیاستدانوں کی سیاسی رنجشوں کی وجہ سے ہی کمزوری ہورہی ہے ۔ہر سیاسی جماعت اپنے سیاسی مفاد کیلئیے سیاست کر رہی ہے۔لیکن اگر پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بچانا ہے تو پھر مفاد پرسی کی سیاست کو پیچھے چھوڑنا پڑے گا اور ملکی مسائل کو اولین ترجیح دینی پڑے گی ۔اب جیسا کہ اختر مینگل بھی پارلیمنٹ سے مایوس نظر آئے اور اُنہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اُنہیں استعفی واپس لینے پر منانے کی کوشش کر رہی ہے۔اور اختر مینگل حکومت کا حصہ بھی نہیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی حکومت کا اُنہیں منانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ہر صورت پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔اگر پارلیمنٹ کے منتخب نمائندے مایوس ہوکر استعفی دینا شروع ہوجائیں گے تو پارلیمنٹ غیر مؤثر ہوجائے گی اور یہی بات حکومت اور اپوزیشن اچھے سے جانتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ اختر مینگل کا استعفی جمہوریت کیلئے اچھا شگون نہیں ۔

بیرسٹر گوہر کی طرح لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق بھی کہہ رہے ہیں کہ اختر مینگل کا استعفی برا شگون ہے۔اُنہوں نے ایکس اکاؤنٹ پر ٹویٹ کیا کہ ‏سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ وفاق کیلئے بُرا شگون ہے۔ ‏آئین کے تحت انتخابی جمہوری اور سیاسی عمل میں حصہ لینے والے مستند بلوچ سیاستدان کا قومی اسمبلی سے استعفیٰ تشویشناک ہے، اس استعفے کو موخر کیا جائے اور بات کی جائے۔‏سعد رفیق نے کہا کہ ان حالات میں ڈاکٹر مالک بلوچ، لشکری رئیسانی، اختر مینگل، عبد الغفور حیدری اور مولانا ہدایت الرحمان جیسے سیاستدانوں کا دم غنیمت سمجھا جانا چاہئے، ‏انکی سخت باتیں سنجیدگی سے سنی جائیں اور آئینی انتخابی سیاست کرنیوالوں کا ساتھ حاصل کیا جائے۔اب اختر مینگل کی طرح پارلیمنٹ کے دیگر منتخب نمائندے بھی مایوس ہورہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان جہاں پارلیمنٹ سے مایوس ہیں اور وہیں وہ ملکی مفاد کیلئے پارلیمنٹ کا ساتھ دینے کی بات کر رہے ہیں لیکن اَنہی کے جماعت کے رہنما کامران مرتضی کہتے ہیں کہ اختر مینگل کے استعفے کے بعد اب ہمارے حلقوں میں بھی اس پر سوچ و بچار شروع ہوچکا ہے کہ ہم بھی پارلمانی سیاست چھوڑ دیں۔اور جس دن ہم نے پارلیمان کی سیاست چھوڑ دی۔ آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں بچے گا۔اِس کے ساتھ علی محمد خان بھی کہہ رہے ہیں کہ اختر مینگل کے استعفے کو آخری استعفیٰ نہ سمجھا جائے۔
یعنی حکومت اور دیگر جماعتوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر سیاسی قبلہ درست نہ کیا گیا تو پھر کسی کے پاس زیادہ وقت نہیں بچے گا۔یعنی تیسری قوت کے ہاتھ میں سارے معاملات چلے جائیں گے۔اب اِس سب میں نواز شریف جنہوں نے 90 کی دہائی میں کی جانے والی اپنی سیاسی غلطیوں سے سیکھا ہے وہ تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ نواز شریف ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے غیر مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔انا ثنااللہ نے کہا کہ جس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں، آئیں بیٹھیں اور بات کریں۔ معافی مانگنے کی کوئی شرط نہیں۔
اب نواز شریف کے رویے میں بہت لچک نظرآرہی ہے۔ ظاہر ہے وہ جمہوریت کو بڑے خطرے سے بچانا چاہتے ہیں اور اِس کیلئے اپنی سیاسی حریف جماعت سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں ۔آج اِسی سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسپیکر کے چیمبر ملاقات ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا حکومت اور اپوزیشن کا مشترکہ وفد ناراض اختر مینگل کے پاس جائے گا اور انہیں منا کر ایوان میں واپس لائے گا۔اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات میں اپوزیشن وفد میں بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور عامر ڈوگر شریک تھے جبکہ حکومت کی جانب سے رانا ثناء اللہ اور خالد مگسی بھی ملاقات میں موجود تھے۔ملاقات میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے سے متعلق بھی مشاورت ہوئی۔اب اِس اِس ملاقات کو دیکھیں اور اِس سے پہلے زرداری اور شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتوں کو دیکھیں تو نظر آرہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی برف پگھلانے پر کام تیز ہورہا ہے ۔لیکن سوال پھر تحریک انصاف کا ہے کہ کیا وہ مذاکرات میں سنجیدہ ہوگی اور حکومت کےساتھ مل کر چلے گی ۔لیکن بیرسٹر گوہر کے آج کے بیان نے یہ آثار کم کردیے ہیں وہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ نواز شریف سے آئی پی پیز والے مذاکرات نہیں کرتے،ہم اِن کے ساتھ کیا ۔

مزیدخبریں