جنگِ ستمبرکی لمحہ بہ لمحہ کہانی،جنگی مؤرخ ایئرکموڈور(ر)قیصرطفیل کی زبانی  

پاک فضائیہ نے یکم سے7ستمبرتک دُشمن کے 35 جہازمارگرائے،پٹھانکوٹ میں 14 جہاز تباہ کئے

Sep 06, 2024 | 10:40:AM
جنگِ ستمبرکی لمحہ بہ لمحہ کہانی،جنگی مؤرخ ایئرکموڈور(ر)قیصرطفیل کی زبانی  
سورس: 24News
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ایم وقار)جنگ ستمبر کے دوران پاک فضائیہ کے جانبازوں نے دشمن کو ہرحوالے سے ناک آؤٹ کیا اوراس کو وہ سبق سکھایا جس کی وہ خواب میں بھی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ ہمارے شاہینوں نے ایک طرف اپنی سرزمین کی حفاظت کو یقینی بنایا تودوسری جانب دشمن کے گھر میں گھس کر اس کوایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہا۔جنگ ستمبرمیں پاک فضائیہ کے سپر ہیروز نے دشمن کے ہوائی اڈوں کواس کے جنگی جہازوں کے قبرستان میں تبدیل کردیا تھا،افرادی قوت اور وسائل کی شدید کمی کے باوجود ہمارے شاہینوں نے معجزاتی کارگزاری کا مظاہرہ کیا اور یہی وجہ ہے ہمارے فضائی محافظوں کی جوانمردی کے یہ قصّے دنیا بھر کے عسکری نصاب کا حصہ رہے۔ 

جنگِ ستمبرنہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا کی جنگی تاریخ کاایک محیّرالعقول واقعہ ہے،اس جنگ کے حوالے سے حُب الوطنی اپنی جگہ مگرزمینی حقائق کوبھی مدنظررکھنا ضروری ہے،جنگی ہیروز کی شُجاعت،بہادری اورجوش وجذبہ میں کوئی کلام نہیں مگراس دورکی زمینی حقیقتوں کوبھی دیکھنا ہوگا تاکہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ملک وقوم کومحفوظ سے محفوظ تر بنایاجاسکے ۔ 

 ذیل میں جنگ ستمبر کی کہانی ایک جنگی مؤرخ ایئرکموڈور(ر)قیصرطفیل کی زبانی بیان کی جارہی ہے جو1975ءمیں پاکستان ایئرفورس کا حصّہ بنے اور30 سال خدمات انجام دینے کے بعد2005ءمیں بطور ایئرکموڈورریٹائر ہوئے،وہ مختلف وارکالجز میں لیکچردیتے ہیں،بطورفائرپائلٹ پی اے ایف کے زیراستعمال تمام جہاز اُڑا چکے ہیں۔

 رَن آف کَچھ میں بھارت نے پہل کرتے ہوئے ہمارے علاقے پرقبضہ کرنے کی کوشش کی تھی،اس کا خیال تھا کہ یہ چونکہ بہت مُشکل علاقہ ہے اس لئے پاکستان شاید مزاحمت نہ کرے لیکن پاک فوج نے”رن آف کَچھ“ پرقبضہ کرکے بھارت کوپیچھے دھکیل دیااوربھارتی فوج کووہاں پہل کرنے کے باوجود کافی مارپڑی،پھربھارت نے حاجی پیرپاس سیکٹرپر قبضہ کرلیاجس سے ہمارے لئے مسئلہ پیدا ہوگیا،ہماری عسکری قیادت نے آپریشن Operation Grand Slam شروع کردیاجس کا بنیادی مقصد بلکہ ٹارگٹ اکھنور پُل پر قبضہ کرنا تھا جو اس لئے بھی بہت اہم تھا کہ وہاں سے سرینگر،جمّوں،سامبا،مدھوپوراورپٹھانکوٹ کو راستہ جاتاتھا اوروہاں سے ان علاقوں کی طرف آپریشن شروع ہوسکتے تھے ، آپریشن گرینڈسلام شروع اگست کے آخری ہفتے میں ہوا اور31 اگست تک ہم جوڑیاں سے آگے پہنچے تھے۔

یکم ستمبرکوہمارے دفترخارجہ اورفوج کاخیال تھاکہ بھارت صرف کشمیر میں ہی جوابی کارروائی کرے گا اور بین الاقوامی سرحد پر کچھ نہیں کرے گا،ہم چھمب کی طرف بڑھ رہے تھے کہ بھارتی فوج نے پیچھے کال بھجوائی کہ بھارتی فضائیہ ہماری مدد کرے کیونکہ پاکستانی فوج تیزی سے پیش قدمی کررہی ہے اس پربھارتی پارلیمان کا اجلاس ہوا،پھرڈیفنس کمیٹی کااجلاس ہوا،صبح دس گیارہ بجے بھارتی فوج نے فضائیہ سے مدد مانگی لیکن اجلاسوں میں فیصلہ ہوتے ہوتے وقت لگ گیا اور دوپہر کو اڑھائی بجے بھارتی ایئرفورس کو تیاری کےلئے کہا گیا،جہاز کو تیار کرنے میں بھی دو اڑھائی گھنٹے لگتے ہیں اس طرح کرتے کراتے پہلے بھارتی جہاز نے 4 بجے ٹیک آف کیا۔یہ ہے یکم ستمبر کو بھارتی فضائیہ کی چھمب سیکٹر میں کارروائی۔

اس وقت ہماری پارلیمان نہیں تھی اورایئرچیف براہ راست جنرل ایوب خان کو فون کرتے اور فوری آرڈر مل جاتے جس کی وجہ سے ہم جلدی ری ایکٹ کرتے تھے۔وار پلان کے مطابق ہم نے جنگ کے آغاز میں ہی بھارت کے تین چار مرکزی بیسز کو تباہ کرنا تھا،بھارت نے سب سے پہلے ویمپائرجہازبھیجے تھے (یہ بہت بوسیدہ جہاز تھا جوکچھ لکڑی اورکچھ لوہے کا بنا تھا)حالانکہ بھارت کے پاس مِگ اورہنٹرجیسے اچھّے جہاز بھی تھے لیکن انہوں نے ویمپائرز بھجوادیئے جو میرے خیال میں غلط فیصلہ تھااس طرح کی کئی غلطیاں بھارتی آپریشن کمانڈرزنے دوران جنگ کیں،سرحد پرجہاں ریڈار نہ ہوں وہاں ہماری آبزرورز یونٹس ہوتی ہیں،یہ تین چار لوگ ہوتے ہیں اور24 گھنٹے باری باری ڈیوٹی پرہوتے ہیں اورجیسے ہی کسی جہاز کی آوازآئے تو پیچھے فون پر رپورٹ کرتے ہیں،اس وقت ہمارے آبزرور نے رپورٹ دی کہ بھارتی جہازحملہ کر رہے ہیں ان میں سے 2 کوہمارے جہازوں نے تباہ کردیا۔

یکم ستمبرکو شام5 بجے کے قریب سرفرازرفیقی اورفلائیٹ لیفٹیننٹ امتیازبھٹّی الرٹ ڈیوٹی پرتھے کہ انہوں نے سرگودھا سے اُڑ کر چھمب کے علاقے میں دوجہاز گرائے۔رفیقی صاحب نے پہلے دو جہازوں کو گرایا اور امتیاز بھٹّی کو موقع دیا جنہوں نے بھی دو جہاز گرا دیئے، پہلے ہی دن دشمن کے4جہازایک سے دو منٹ میں تباہ ہو گئے،سرفرازرفیقی کی گنریز بہت اچھّی تھی،دُشمن کے 4جہاز ایک ساتھ گرنے سے ہماری فوج کا حوصلہ بہت بلندجبکہ دُشمن کا مورال بہت نیچے آگیا کیونکہ وہ ہم سے تین گنا بڑی طاقت تھا اور پہل بھی اس نے کی تھی،اس کے بعد چھوٹے موٹے آپریشن ہوتے رہے۔

2ستمبرکو بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔

3ستمبر کوبھارت نے 6 نیٹ جہاز بھیجے اورہم نے 2سیبر بھجوائے،ایک نیٹ نے ہمارے سیبر کو مارا تو اس کی دم اُڑگئی لیکن پائلٹ یوسف علی خان نہ صرف اس کے باوجود لڑتے رہے بلکہ طیارے کوبحفاظت واپس لے آئے،اس دوران ہمارے ریڈارنے 104 سٹارفائٹرکو بھجوایاجس کے بعد نیٹ بھاگ گئے لیکن ایک بھارتی پائلٹ نے پسرورکی جنگ عظیم دوم(1939-45) کی ایک ایئرفیلڈ پرہنگامی لینڈنگ کرلی جہاں اس وقت گائیں بھینسیں چراکرتی تھیں،اس بھارتی پائلٹ کا نام برج پال سنگھ تھاجو اپنے سکواڈرن کا ڈپٹی تھا،اس نے ہنگامی لینڈنگ کی جووجہ بیان کی وہ سمجھ سے بالاترتھی کہ میرے جہاز میں ملٹی پل پرابلم آگئے تھے حالانکہ جہاز میں ایک وقت میں اتنی خرابیاں نہیں ہوتیں،اس طرح بھارت نے خود پر ہی ایک گول کرلیاجس کا ہم نے بھی خوب تماشا بنایا اور ہمارے پائلٹ نے اسے وہاں سے اُڑا کر سرگودھا شہر پر پرواز کی جس سے ہمارا مورال مزید بلند ہو گیا اوردوسری طرف بھارت میں سراسیمگی پھیل گئی،یہ بھارتی فضائیہ کےلئے دوسرا بڑا دھچکا تھا۔

اب 6ستمبر کی طرف آتے ہیں جب بھارتی فوج نے باقاعدہ بین الاقوامی سرحدعبورکرکے جنگ کااعلان کردیاتھا، 15ڈویژن بریگیڈ کے کمانڈرمیجرجنرل نرنجن پرساد نے اپنے ٹروپس کو کہہ دیا تھا کہ شام کی پارٹی لاہور جمخانہ میں ہو گی اوریہ بات ریکارڈ پر موجود ہے،لاہور میں اس وقت 10ڈویژن ہوتی تھی اور11 ڈویژن قصور میں تھی،چھمب سیکٹرکی طرح واہگہ کی سرحد کے بالکل قریب بھی تعینات ایئرفورس کے آبزرورز نے علی الصبح اطلاع دی کہ ٹینکوں کی آوازیں آرہی ہیں،جب آبزرورزکی اطلاع پرپاکستان ایئرفورس نے پاک فوج کواطلاع دی کہ واہگہ پرصورتحال چیک کریں توبھارتی فوج واہگہ عبورکرچکی تھی،یہاں بھی قدرت نے ہماری مدد کی کہ ہمارے جہازاس وقت پہلے سے فضا میں تھے اور کسی مشن پرسیالکوٹ کی طرف جارہے تھے،انہیں ہیڈ کوارٹرز سے رُخ تبدیل کر کے فوراً واہگہ کی طرف جانے کا حکم دیاگیا کیونکہ بھارتی ٹینک باٹا پور کی طرف پیش قدمی کررہے تھے،ہمارے 4 جہازوں کی فارمیشن کی قیادت سکواڈرن لیڈرسجاد حیدرکررہے تھے جنہوں نے واہگہ کی طرف آکراٹیک شروع کردیا،یہاں بھی بھارتی فوج کی ایک اورنااہلی دیکھئے کہ اس نے اتنا بڑا آپریشن کسی فضائی کورکے بغیرہی شروع کردیا تھا،ہمارے جہازوں نے وہاں تقریباً 3 سے 4 اٹیک کئے اوردُشمن کے بارہ تیرہ ٹینک تباہ کئے،پیچھے سے مزید ٹینک آنے میں کافی دیرلگتی ہے۔

یہ 4 جہاز پشاور سے آئے تھے اورجب ان کا ایندھن ختم ہوا تو انہوں نے سرگودھا کو کال دی کہ مزید چار جہاز بھیجے جائیں اس طرح صبح ساڑھے نوبجے سے شام ساڑھے تین بجے تک یعنی 6 گھنٹے تک ہمارے 4، 4 کی فارمیشن میں جہاز آتے رہے اوردُشمن پر بم برساتے رہے،ان 6 گھنٹوں میں ہمارا ایک بھی جہاز انٹرسیپٹ نہیں ہواجس کا ہمیں فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے بھارتی فوج کی پیش قدمی مکمّل طور پر روک دی اورلاہور کوبچالیا،اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں اس میں جتنا ہاتھ ہماری قابلیت کا تھا اتنا ہی ہاتھ بھارتی نااہلی کا بھی تھا۔

لاہورکو بچانے میں ایئرمارشل نور خان کی بصیرت کا بڑا ہاتھ ہے،جنگ کے پلان توایئرمارشل اصغر خان کے دور سے بنے ہوئے تھے لیکن کشمیر کے حالات خراب ہوئے تو نورخان کی دوراندیشی نے بھانپ لیا تھاکہ بھارت جنگ دوسرے محاذ پرضرور لائے گااس لئے انہوں نے پاک فضائیہ کوالرٹ کردیا تھا،ہمارے جہاز 3 اور 6 منٹ کے الرٹ پرتھے۔

6 ستمبر کوصبح 10 بجے کے قریب جنرل ایوب خان نے باقاعدہ جنگ ڈکلیئر کردی اور ان کا مشہورخطاب سب نے سُن رکھا ہے۔اصغرخان دور کے وارپلان کے مطابق ہم نے بھارت کی 4 بیسزکلائی کُنڈہ،آدم پور،ہلواڑہ اور پٹھان کوٹ کو تباہ کرنا تھالیکن ہمیں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ہمارے پاس جہاز کم تھے صرف پشاورکا 19 سکواڈرن تیارتھا جس نے پٹھانکوٹ پرحملہ کرنا تھا وہاں سے8 جہاز حملہ کرنے چلے گئے،آدم پوراورہلواڑہ پر حملے کے لئے بھی ہمارے 8، 8 جہازوں نے جانا تھا لیکن 4، 4 جہاز دستیاب تھے جن میں سے بھی دو خراب ہوگئے تو ایئر مارشل نور خان نے3، 3 جہازوں کوہی بھجوانے کا فیصلہ کرلیا۔

پٹھانکوٹ پرہمارا حملہ بہت کامیاب رہااورہمارے پائلٹس نے ان کے 14 جہازوں پر حملہ کیا اور تباہ کردیا۔یہ بھارتی فضائیہ کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا،اگرچہ بھارت کے پاس اس وقت بھی جہازوں کی کمی نہ تھی لیکن ایک تین گناچھوٹی فضائیہ کے ہاتھوں ایک ہی حملے میں 14 جہازوں کی تباہی نے بھارتی ایئرفورس کا مورال نہایت گرادیا۔

 اب7 ستمبر پر آتے ہیں۔پٹھانکوٹ پر حملے کے بعد کلائی کُنڈا سے بھارتی 5سکوارڈن کے جہازوں نے ڈھاکہ بیس پر حملے کا پلان بنایا جہاں ہمارا صرف ایک 14 سکوارڈن تھالیکن شاید بھارتی فضائیہ کی انٹیلی جنس خراب تھی کہ ڈھاکہ بیس کی بجائے بھارتی طیارے ڈھاکہ سے فاصلے پر جیسور،چٹاگانگ، شادی گنج،رن پوراوردیگر 5 چھوٹے رن ویز پر حملے کرکے آگئے وہاں انہیں ایک بھی پاکستانی جہازنہیں ملا،جب یہ جہاز اپنی اپنی بیسز پر لینڈ کرگئے تو ڈھاکہ سے سکواڈرن لیڈر شبیر نے کلائی کُنڈہ پر پٹھان کوٹ کی طرح حملہ کردیا اور تسلّی سے نیچے فلائی کرتے ہوئے بھارت کے 8 جہازتباہ کردیئے،وہ ایندھن کم ہونے کے بعدواپس آئے اورایک گھنٹے کے بعد دوبارہ کلائی کُنڈہ پرحملہ کرکے مزید 3 جہاز تباہ کرآئے،یہ بھی بھارت کے منہ پرایک اورطمانچہ تھا کہ ایک سکواڈرن 5 سکوارڈنز کے چھتّے میں آیا اورمارکرچلا گیا۔

اس کے بعدبھارتی فضائیہ نے سرگودھابیس پرحملے کا پلان بنایالیکن وہ نہایت ڈھیلا ڈھالا سا آپریشن تھا اور سرگودھا کی بجائے اس کے کچھ جہازسرگودھا کے قریب ہی ایک چھوٹی سی ایئرفیلڈ چھوٹی سرگودھا پہنچ گئے،اس کے کچھ جہازایک اور چھوٹی سی جنگ عظیم دوم کی ایئرفیلڈ ویگووال پہنچ گئے،یہ دونوں علاقے سرگودھا کے پاس تھے،سرگودھا کا مین رن وے 2 میل لمبا ہے جبکہ یہ دونوں رنز ویز دو دو فرلانگ بھی لمبے نہ تھے۔اس روز بھارتی فضائیہ نے 6، 7 مشن کئے اورصرف ہمارا ایک جہاز تباہ کیا ان میں ایک مشہورزمانہ ایم ایم عالم کی ڈاگ فائٹ بھی ہے جس میں انہوں نے دشمن کے 5 جہازوں کونشانہ بنایا،ایم ایم عالم 6 ستمبر کی شام بھی دُشمن کاایک جہاز گراچکے تھے۔

ایم ایم عالم کی ڈاگ فائٹ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ہلواڑہ سے 5 جہازسرگودھا پرحملہ کرنے آرہے تھے اور4 حملہ کرکے واپس جارہے تھے ان جہازوں نے جس جگہ ایک دوسرے کو کراس کرنا تھا وہاں ایم ایم عالم موجود تھے اورانہوں نے پیچھے سے فائرنگ شروع کردی،فائرنگ شروع ہوتے ہی سب جہازوں نے ایک طرف ٹرن لے لیا اورایم ایم عالم نے ایک ایک کرکے 5 جہازوں کو نشانہ بنادیا۔

ایم ایم عالم بلاشُبہ ایئرفورس کے چند بہترین پائلٹس میں سے تھے اوران کاگنریز اسکوربہت اچھّا تھا،وہ ایف 86 سیبرکے سب سے بہترین پائلٹ تھے۔ان 5 میں سے 3 جہازوں کا ملبہ سانگلہ ہل کے قریب گرا تھا۔6 ستمبر کی شام ہم نے اپنے بامبرزبھی بھیج دیئے تھے۔

یکم سے7ستمبر تک ہم نے دُشمن کے 35 جہاز گرائے جسے بھارتی ایئر فورس نے بھی تسلیم کیاجبکہ ہمارے صرف 7 جہازتباہ ہوئے ایک زمین پراور 6 فضامیں،جنگ کے دوران ہم نے 190 کے قریب بامبرز آپریشن کئے اس کے مقابلے میں بھارتی بامبرزنے200 کے قریب آپریشن کئے ان کے پاس تقریباً 180 بامبرز جہاز تھے اور ہمارے پاس صرف 32لیکن نتائج بالکل مختلف تھے،ہمارے بامبرزپائلٹس نے شروع میں رات کو3، 3مشن کئے تھے پھر دو پر آگئے تھے۔

بھارتی فضائیہ نے اعتراف کیاتھا کہ ان کے 39 ایئرکرافٹ تباہ ہوئے جن میں سے 22 دن اور 16 رات کوبامبرز مشن نے تباہ کئے اس کے مقابلے میں بھارتی بامبرز 200 مشنز میں ہمارا ایک بھی جہاز تباہ نہیں کر سکے۔بھارتی فضائیہ نے اپنے17 جہازوں کے ڈیمیج ہونے کا بھی اعتراف کیا تھاجبکہ ہمارا ایک بھی جہاز تباہ نہیں کرسکاتھا۔