آج 6 ستمبر 2024 کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے جو پاکستان کے آئین اور اداروں کی ساکھ کا دفاع ایک فیصلے سے کیا ہے اُس سے یقین ہوتا نظر آرہا ہے کہ ابھی انصاف مکمل ختم نہیں ہوا ،پاکستان کی عدالتی تاریخ کچھ زیادہ روشن نہیں رہی ’نظریہ ضرورت ‘اور ’بلیک ڈکشنری‘جیسے لفظوں کے داغ شائد صدیوں نہ بھلائے جاسکیں، ہر آمر اور ہر آمر نما سویلین نے قانون و آئین کو اپنے در کی باندی سمجھے رکھا اور قانونی آمریت کا یہ انداز تھا کہ کسی وزیر اعظم کو پانامہ میں نہ بھجوایا جاسکا تو اقامہ کا ڈرامہ رچایا گیا ، مشرف سمیت جس جس سیاسی فوجی نے اس سے بوٹ پالش کرائے ماسوائے معدودے چند کے سب نے گھٹنے ٹیک دئیے۔
ابھی حال کی ہی ایک مثال تو جسٹس رئٹائرڈ شوکت صدیقی کی ہے جنہیں بقول خود اُن کے اپنے کورٹ مارشل کا سامنا کرتے سابق جنرل فیض حمید نے کہا کہ "ہمارے دو سال کی مخنت ہے جسے ضائع نہ کریں " وہ ڈٹ گیا تو" بابا ڈیم" گروپ نے کیئریر ہی ختم کردیا لیکن آج نیب ترامیم کے حوالے سے پانچ رکنی بنچ نے جو تاریخ ساز فیصلہ لکھا ہے اس کا صرف ایک جملہ سارے تو نہیں کئی داغ دھونے کے کام آئے گا فاضل پانچ رکنی بنچ کے رکن اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا " پرویز مشرف کے حامی آئین کو پامال کرنے میں برابر کے شریک ہیں" ہم تو اسی انتظار میں تھے کہ ہمارا عدالتی نظام سامنے آئے اور آمریت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو۔ آئین کو دوبارہ لکھنے کی جو روایت ’بابا ڈیم‘ اور اسی سلسلہ ضروریہ کے ججز نے ڈالی تھی کہ آئین کو پامال کرنے والوں کا ساتھ دو اور سب کچھ تہہ بالا کردو یہ ایک فیصلہ اس کو ختم کرتا نظر آتا ہے ،یہ فیصلہ عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی سے منظور شدہ نیب آرڈیننس ترمیمی بل کے دو رکنی بنچ کے خلاف پانچ رکنی بنچ نے سنیا ہے فیصلہ کیا ہے پہلے وہ پڑھ لیں ۔
ضرورپڑھیں:پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو نئی پابندیوں کا سامنا
پانچ رکنی بنچ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس امین الدین ، جسٹس جمال کان مندو خیل ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اختر رضوی شامل ہیں فیصلہ کچھ یوں ہے کہ 16 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا، فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہٰ کا اضافی نوٹ شامل ، جسٹس حسن اختر رضوی کا اضافی نوٹ بعد میں جاری کیا جائے گا۔پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے کے 34 دن بعد نیب قانون بنایا گیا،پرویز مشرف نے آئین کو معطل اور پس پشت ڈال کر کر نیب قانون بنوایا، پرویز مشرف نے اس کے حق میں فیصلہ نہ دینے والے ججز کو عہدے سے ہٹا دیا، پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لیے قانون سازی کی،اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی،جو سیاست دان مشرف کی سپانسرڈ جماعتوں میں شامل ہوئے ان کے کیسز ختم کر دیئے گئے،نیب قانون سیاسی انتقام اور انجینئرنگ کیلئے قائم ہوا،پرویز مشرف کے حامی آئین کو پامال کرنے میں برابر کے شریک ہیں اس کے ساتھ اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ ہے جس میں کہا گیا چیف جسٹس کے اکثریتی فیصلہ سے اتفاق کرتا ہوں حکومتی اپیلیں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کےتحت قابل سماعت نہیں،حکومت کی انٹرا اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں،،متاثرہ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی جاتیں ہیں،نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،،ججز اور آرمڈ فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ترامیم کیخلاف کیس سننے والا تین رکنی بنچ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق نہیں تھا،سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور اعجازالاحسن نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون معطل رکھا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور اعجازالاحسن اس دوران نیب ترامیم کیس کی سماعت کرتے رہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو 100 روز تک معطل رکھا گیا،موجودہ چیف جسٹس پاکستان نے عہدہ سنبھالتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق کیس سنا، آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے،عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے،آئین میں دیئے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں،سپریم کورٹ نیب قانون میں حکومت نے تین ترامیم کیں، پہلی ترمیم 22 جون اور دوسری ترمیم 12 اگست 2022 کو کی گئی، نیب قانون میں تیسری ترمیم 29 مئی 2023 کو کی گئی،نیب ترامیم کیخلاف مقدمے کی چھ سماعتیں ہوچکی تھیں تو تیسری ترمیم لائی گئی نیب قانون کی تیسری ترمیم کا سپریم کورٹ نے فیصلے میں جائزہ ہی نہیں لیا، سپریم کورٹ کو قانون سازی جلد ختم کرنے کے بجائے اس کو بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے،اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا،نیب ترامیم میں سے بہت سی ترامیم کے معمار بانی پی ٹی خود تھے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نیب ترامیم کیخلاف نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی کورٹ ترامیم کیخلاف فیصلہ دینے والے ججز نے آئین نہیں بلکہ اپنے ذاتی معیار اور پیمانے کو سامنے رکھا کہنے کی ضرورت نہیں مگر ججز کو صرف اپنے حلف کی پاسداری کرنی چاہیے، نیب ترامیم کیخلاف فیصلہ بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کو ثابت نہیں کرتا،سپریم کورٹ نیب قانون میں تیسری ترمیم ٹرائل اور عدالتوں کی کاروائی سے متعلق ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا فیصلہ پہلے ہونا چاہیے جسٹس منصور علی شاہ کو اصولی طور پر قانون کے منافی قائم بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے تھا۔
اب وہ زمانہ گیا جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے تو عمران نواز جج اپنی ساس کے کہنے پر اسے عقاب بتایا کرتے تھے اس ایک فیصلے نے ظاہر کردیا ہے کہ عمران خان کو وہ بڑی عدالتی سہولت جو فیض ، بابا ڈیم اور جج کی ساس کی وجہ سے حاصل تھی اب نہیں ہوگی۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ایڈیٹر