(24 نیوز)چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عدالتی فیصلے پر پہلا ردعمل دیتے ہوئے کہاہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے جئے بھٹو ،جئے عوام پاکستان زندہ باد۔
واضح رہے کہ سپیکر رولنگ از خودنوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے سپیکر کی رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا۔بنچ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور شام7 بجے سنانے کا اعلان کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ نےاسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا اور ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میرادرخواست ہے نئے انتخابات کرائے جائیں ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا، عدالت نے آئین کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا
کیس کی سماعت کے موقع پرجسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔
نعیم بخاری نے فوادچودھری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔
جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی، چیف جسٹس کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں۔
دلائل کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا تھا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التواءتحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے، اب نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا اور اب معاملے عوام کے پاس ہے، اس لیے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کر دے۔ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔