(امانت گشکوری) پنجاب اور خیبرپختونخوا(کے پی) میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ جاری کردیا گیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ 25 صفحات پر مشتمل ہے۔تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا ہےکہ سیاست دان مناسب فورمز کے بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں لیکن عدالت ہرصورت ہار جاتی ہے، سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔
ضرور پڑھیں :’’عمران خان کیلئے سب اچھا نہیں ہے‘’ سینئر صحافی کے تہلکہ خیز انکشافات
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے ماضی سےکوئی سبق نہیں سیکھا۔
یاد رہےکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں 23 فروری کو ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں جسٹس اطہرمن اللہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے الگ سے نوٹ بھی تحریر کیا تھا جو اب تفصیلی طور پر جاری کردیا گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ میں لکھا کہ پی ٹی آئی کی درخواست سن کر سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی،اعتراضات سے عوام کے عدالت پر اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے،ازخود نوٹس کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، جسٹس منصور،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحیی آفریدی کی رائے سے متفق ہوں،27 فروری کو ججز کے غیر رسمی اجلاس میں طے ہوا تھا کہ فیصلہ چار تین کا ہے۔
درخواستوں اور از خود کو خارج کرنےکی تین بنیادی وجوہات ہیں،آرٹیکل 184/3 کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بنچ پر لازم تھی،عدالت کو اپنی غیر جانبداری کیلئے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہئے،انتخابات کی تاریخ کا معاملہ ایک تنازعہ سے پیدا ہوا ہے جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کو کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا،تحریک انصاف نے استعفوں کی منظوری کیلئے پہلے عدالتوں سےر جوع کیا،تحریک انصاف نے سیاسی حکمت عملی کے تحت استعفے دیئے،استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف پھر عدالت چلی گئی۔
سیاسی حکمت عملی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر بھی سوالات اٹھتے ہیں،کیا ایسی سیاسی حکمت عملی آئین اور جمہوریت سے مطابقت رکھتی ہے؟کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟کیا عدالت کو ایسی سیاسی حکمت عملی کو تقویت دینے کیلئے اپنا فورم استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیے؟کیا عدالت کو غیر جمہوری روایات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے؟
کیا سپریم کورٹ کو تحریک انصاف کی فورم شاپنگ کا نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا؟ایسا کرکے عدلیہ غیراراداری طور پر پارلیمنٹ کو کمزور کرے گی، واضح رہے کہ نہ بنچ سے الگ ہوا نہ ہی اپنے مختصر نوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دی تھیں، معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ہونا لازمی ہے،1999 میں ایک منتخب وزیر کو اس وقت کے آرمی چیف نے بے دخل کر کے اسمبلی توڑ دی۔
اس وقت آرٹیکل 184/3 کا استعمال کر کے سپریم کورٹ نے اس اقدام کو درست قرار دیا،1999 میں آرمی چیف کو بطور چیف ایگزیکٹو آئین میں ترمیم کی بھی اجازت دی گئی،چیف جسٹس کو بنچز کی تشکیل کا اختیار تو حاصل ہے،چیف جسٹس کو بنچز کی تشکیل کا اختیار عوامی مفاد اور اعتماد کیلئے استعمال کرنا چاہیئے،چیف جسٹس بھی دیگر ججز کی طرح ہی ہوتا ہے،سپریم کورٹ کے مفاد اور بہتری کیلئے چیف جسٹس کو کام کرنا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ بھی آئین،قانون اور عوام کے سامنے جوابدہ ہے، آئین،قانون اور عوام ہی سپریم کورٹ کے اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں،ججز کی بنچز میں شمولیت اور انکے سامنے مقدمات مقرر کرنا قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔