بجلی صارفین کو جان بوجھ کر اضافی بل بھیجے گئے،ہولناک انکشاف

Dec 07, 2023 | 09:29:AM

Read more!

بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے اور اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کےلئے صارفین کو تختہ مشق بناتی ر ہتی ہے اور دو سال کے وقفے کے بعد ایک بار پھر ایسا ہی ہوا۔صارفین سے نہ صرف اوربلنگ کی گئی ہے بلکہ ایک ماہ سے زائد عرصے کے بعد ریڈنگ کر کے اپنے لائن لاسز کا نقصان بھی پورا کیا گیا ہے۔اور عوام کی جیبوں سے تقریبا نو سو ارب کے قریب نکلوائے گئے ہیں ۔ اور یہ سب ان مہینوں کے دوران ہوا جب نگراں حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان بھر میں بجلی کے بلوں میں اضافے پر عوام کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کا کہنا تھا کہ اس عوامی احتجاج کے باوجود حکومت کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس اور حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر ہوا ہے، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔اب یہ اوربلنگ ثابت ہو چکی ہے ۔اس سے پہلے بھی مختلف ڈسکوز کمپنیاں اس طرح کی ہیرا پھیرا میں ملوث رہی ہیں لیکن اس اووربلنگ کے اعتراف کے باوجود بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ٹاپ مینجمنٹ سے لے نچلی سطح تک کسی بھی افسر کے خلاف اووربلنگ پر کوئی محکمانہ کاروائی نہیں کی گئی اور کوئی سزا سامنےنہیں آئی ہے جس سے ناصرف حکومت کی رٹ کمزور ہوئی بلکہ حکومت کو سیاسی طور پر بھی اووربلنگ کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔نیپرا پہلے بھی صرف ایکشن کی بجائے رپورٹ ہی جاری کرتا تھا اور اس بار بھی اس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس مین ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں ۔ نیپرا نے اپنی 14 صفحہ پر مشتمل رپورٹ میں بتایا کہ کوئی ایک تقسیم کار کمپنی بھی ایسی نہیں ہے، جو 100 فیصد درست بلنگ کر رہی ہے۔ جولائی اور اگست 2023 میں ملک بھر کے صارفین کی جانب سے اضافی، زائد اور غلط بلوں کی شکایت پر جانج پڑتال کی گئی ۔ نکوائری میں پتا چلا کہ صارفین سے چارج کی گئی رقم بل پر موجود میٹر ریڈنگ کی تصویر سے مختلف ہے، کچھ کیسز میں تصویر یا تو غیر واضح ہے یا تو جان بوجھ کر لی نہیں گئی ہے۔ ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو)، لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو) اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) نے غلط تصویروں کے ساتھ سب سے زیادہ بل بھیجے۔ صارفین کو لازمی 30 دن کی بلنگ کی مدت سے زائد کا بل بھیجا گیا، جس کے نتیجے میں ’پروٹیکٹڈ‘ صارفین کو اوپر والے سلیب کی شرح سے بل بھیجے گئے۔ قانون کے تحت میٹر ریڈنگ لازمی طور پر 30 دن سے کم یا زیادہ سے زیادہ 30 دن تک کی جانی چاہیے، تاہم نیپرا کو پتا چلا کہ ایک کروڑ 37 لاکھ سے زائد گھریلو صارفین کو ان دو مہینوں کے بل 30 دن سے زائد مدت کے بھیجے گئے، جبکہ 32 لاکھ صارفین سے بل کا زائد دورانیہ ہونے کے نتیجے میں مہنگے سلیب کے مطابق چارجز بھیجے گئےجس سے میں 8 لاکھ 40 ہزار صارفین پروٹیکٹڈ کیٹگری سے نکل گئے، جبکہ 52 ہزار 800 صارفین نان لائف لائن کیٹگری میں منتقل ہو گئے، صرف میپکو نے 79 لاکھ 90 ہزار صارفین کو جولائی اور اگست میں زائد بل بھیجے۔ گوجرانوالہ الیکٹرک پاور کمپنی (گیپکو) نے 16 لاکھ 50 ہزار صارفین، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) نے 11 لاکھ 90 ہزار صارفین، لیسکو نے 11 لاکھ 70 ہزار، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) نے 7 لاکھ 30 ہزار 105، سیپکو نے 3 لاکھ 26 ہزار 249، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے 3 لاکھ 13 ہزار 596، کیسکو نے ایک لاکھ 64 ہزار 987 اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) نے 45 ہزار 850 صارفین کو زائد بل بھیجے، یہ اعداد و شمار 11 میں سے 9 ڈسکوز کے ہیں، کے الیکٹرک اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی نے مکمل ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔ کے الیکٹرک نے 78 ہزار صارفین کو جولائی اور 66 ہزار کو اگست میں غلط تصاویر کی بنیاد پر بل جاری کیے۔ اسی طرح ایک کروڑ 6 لاکھ 80 ہزار صارفین کو 30 دن سے زائد دورانیے کے بل بھیجے گئے، کچھ کیسز میں 40 دن سے زائد تک کی بلنگ کی گئی، 2 لاکھ 40 ہزار سے زائد صارفین کو 40 دن سے زائد دورانیے کے بل بھیجے گئے۔ رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے ان دو مہینوں میں 4 لاکھ صارفین کو خراب میٹر کے بہانے ’اوسط‘ بل بھیجے گئے۔ اگست 2023 تک 4 لاکھ 92 ہزار 478 خراب میٹرز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی، یہ میٹرز 2 ماہ سے تین سال سے زائد تک خراب رہے۔ قانون کے تحت ایسے میٹرز کو 2 بلنگ کے اندر لازمی تبدیل کرنا ہوتا ہے، متعلقہ تقسیم کار کمپنیوں نے میٹرز تبدیل کرنے کے بجائے خراب قرار دیے جانے کی مدت سے اوسط بنیادوں پر بلنگ کی گئی۔

یہ انکشافات ہو لناک ہیں ،بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں عادی چوروں کی حثیت حاصل کر چکی ہیں کیونکہ وہ اس طرح کے اقدامات ہر دو سال بعد دہراتی ہیں ،روایتی رپورٹ اور انکوائری کی جاتی ہے لیکن کسی کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔جس کی وجہ سے یہ دوبارہ ایسے کام انجام دینے کے قابل ہو جاتی ہے۔اور نہ ہی ان کمپنیز سے کبھی اوربلنگ سے حاصل کی گئی رقم واپس صارفین کو منتقل کی گئی ۔کیونکہ رقم کا کچھ حصہ خود گورنمنٹ کے خزانے میں جاتا ہے اس لیے حکومت بھی اکثر اوقات مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں ۔مثال کے طور دو برس پہلے 2021 میں بھی تقریبا 8 ڈسکوز کمپنیوں اسے طرح کے سکینڈل میں ملوث تھی ۔یہ دور تحریک انصاف کا تھا اور حماد اظہر وزیر توانائی تھے تب بھی یہ انکشاف ہوا تھا کہ جنوری 2021 سے اگست 2021 تک 8 ماہ کے دوران ملتان، سکھر، کراچی، لاہور، حیدر آباد، گجرانوالہ اور فیصل آباد کے لاکھوں صارفین کو بجلی کے بل طے شدہ 31 روز کے بجائے 37 روز کی بنیاد پر کئی بار بھیجے گئے۔اس وقت 31روز میں 300 یونٹ کا بل 3200 روپے بنتا تھا ۔لہٰذا اس طرح صرف ایک روز کے اضافے سے بلوں میں 600 روپے کا اضافہ ہو گیا تھا۔ یعنی 31 کے بجائے 37 روز کا بل بھجوانے سے کئی کروڈ صارفین سے اضافی بلنگ کی گئی ۔لاکھوں صارفین پروٹیکڈ اور لائف لائن کیٹگری سے نکل کر مہنگی کیٹگری میں چلے جائے۔تب کے الیکٹرک، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی، گجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی اور سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی نے اپنے صارفین کو مقررہ 31 یوم سے زائد دنوں کا بل ایک یا ایک سے زائد بار بھیجا۔ان کمپنیوں میں سے بعض نے تو 35 سے 37 دن تک کے بل بھی صارفین کو بھیجے۔ پرانے اور اس نئے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں عوام کی جیبوں پر کروڑوں روپے کا ڈاکہ ڈال رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت اور ریگولیٹرز خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، جس کی ذمہ داری شہریوں کو ناجائز بلنگ سے بچانا بھی ہے، کی اس معاملے پر ردعمل کافی سست دکھائی دیتا ہے۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ تب 8 ماہ کے دوران اور اب دو ماہ کے دوران 36 اور 37 دن کے بجلی کے بل بھجوانا دن دیہاڑے ڈکیتی کے مترادف ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ ایسے سکینڈلز میں ملوث افراد و کو کیسے سخت سے سخت سزا دی جا سکتی ہے۔ نیپرا یہ لوٹی گئی رقم ڈسکوز سے واپس ک کیسے لے سکتا ہے اور صارفین کو لوٹانے کا کیا طریقہ کار ہوگا ؟

مزیدخبریں