پاکستان تحریک انصاف کے بانی سابق وزیر اعظم اور اس وقت اڈیالہ جیل میں قید عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر کی تیسری سول نافرمانی کی کال دے دی ہے۔ انہوں نے جو مطالبات پیش کیے ہیں کیا وہ تسلیم کر لیے جائیں گے ؟ کیا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ گھٹنے ٹیک دیں گے ؟ کیا تحریک انصاف میں اتنی جان باقی ہے کہ وہ اس سول نافرمانی کو کامیاب بنا سکیں ؟ اور کیا عوام میں ایسی کسی تحریک چلانے یا اسے کامیاب بنانے کی ہمت ہے ؟ یہ ہیں وہ چند سوالات جو کل سے میرا پیچھا کر رہے ہیں ۔
ہمارے خطے میں سول نافرمانی کی پہلی تحریک کرم چند گاندھی کی سول نافرمانی تحریک 1930 میں شروع ہوئی، جو تاریخ میں "نمک مارچ" یا "ڈانڈی مارچ" کے نام سے مشہور ہے۔ اس تحریک کا مقصد برطانوی حکومت کے ظالمانہ ٹیکس نظام، خاص طور پر نمک پر ٹیکس، کے خلاف پرامن احتجاج کرنا تھا۔ گاندھی نے گجرات کے ساحلی علاقے ڈانڈی تک تقریباً 240 میل پیدل مارچ کیا اور نمک بنا کر قانون توڑا۔ یہ تحریک ہندوستان کے کئی حصوں میں مقبول ہوئی، لیکن پنجاب میں اس کی کامیابی محدود رہی۔ پنجاب کی نسبتاً کم شمولیت کی وجہ مقامی سیاسی حالات، زرعی معیشت، اور برطانوی حکومت کے مضبوط کنٹرول کو قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کا بیان اور ریکوڈک منصوبہ
یہ تحریک ایک حد تک کامیاب رہی کیونکہ اس نے برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا اور عالمی سطح پر ہندوستانی تحریکِ آزادی کو اجاگر کیا۔ تاہم اسے ایک سیاسی سٹنٹ بھی سمجھا جاتا ہے ہیں کیونکہ اس کے فوری نتائج محدود تھے اور برطانوی حکومت کو کوئی بڑی رعایت دینے پر مجبور نہ کر سکی۔
قائداعظم محمد علی جناح سول نافرمانی تحریک میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ گاندھی کے سیاسی فلسفے اور جدوجہد کے طریقوں سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ جناح کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے عملی، آئینی، اور منظم سیاسی جدوجہد زیادہ مؤثر ہے جبکہ گاندھی کے طریقے، جیسے عدم تشدد اور سول نافرمانی، جذباتی اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے باوجود حقیقی سیاسی مسائل کا حل فراہم نہیں کرتے تھے۔
قائداعظم کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق اور ان کی علیحدہ سیاسی شناخت کو محفوظ رکھنا آزادی کی جدوجہد کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جناح نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گاندھی کی تحریک اکثر ہندو اکثریت کے مفادات کو ترجیح دیتی تھی جبکہ مسلمانوں کو ان کی الگ سیاسی حیثیت سے محروم کرنے کا خطرہ تھا۔ اس لیے جناح نے نہ صرف اس تحریک سے خود کو دور رکھا بلکہ مسلمانوں کو بھی ایسی تحریکوں سے محتاط رہنے کی تلقین کی، تاکہ ان کے قومی تشخص کو نقصان نہ پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں: کیاعمران خان کو مار دیا جائےگا؟کیاسازش تیارہے؟ تصویر بھی منظر عام پر آگئی
گاندھی کی سول نافرمانی تحریک، خاص طور پر 1930 کے "نمک مارچ" کے دوران، انگریز حکومت نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں تقریباً 60،000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں خواتین اور اہم سیاسی رہنما بھی شامل تھے۔ مہاتما گاندھی خود بھی 5 مئی 1930 کو گرفتار ہوئے تھے۔
ان دو پیراگراف میں شائد میرے چند ایک سوالات کے جوابات موجود تھے جو مجھے اپنی تحقیق کے دوران نظر آئے پہلا یہ کہ یہ تحریک پورے پاکستان کی تحریک نہیں ہوگی اگر عام انتخابات کی بات کر لی جائے تو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 101 نشستیں حاصل کیں، پاکستان مسلم لیگ نے 75 نشستیں، اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 مولانا فضل الرخمان اور ایم کیو ایم نے 20 اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں نے جو حکومت کے ساتھ ہیں نے 12 نشستیں حاصل کیں اگر انہیں اعداد و شمار کو دیکھ لیا جائے تو ایک بات تو واضح ہے کہ ایک بڑی جماعت ہونے کے باوجود صاف واضح ہے کہ مجموعی طور پر ووٹ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف گئے اس میں اگر فارم 45/47 والی نشستیں بھی شامل کردی جائیں تو بھی اس خلیج کو پاٹا نہیں جاسکتا ۔ یوں یہ تحریک اس تناظر میں کامیاب نہیں ہوگی ۔
گاندھی کی تحریک ہندوستان میں سول نافرمانی کی سب سے بڑی تحریک تھی لیکن جس علاقے کو ہم آج پاکستان کہتے ہیں اس میں یہ تحریک کامیاب نا ہوسکی اور اس کی بڑی وجہ پنجابیوں کی عدم شمولیت تھی اور یہی صورتحال آج ہے پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے چند اضلاع میں یہ تحریک کامیاب نہیں ہوگی اس طرح مجموعی طور پر یہ تحریک ان علاقوں میں اُٹھ نہیں سکے گی ۔
اس تحریک کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت تحرک انصاف "گیم آف تھرون " کا منظر پیش کر رہی ہے جن میں اتفاق ہے وہ جیل میں ہین اور جو نااتفاقی کا شکار ہیں ایوانوں میں ہیں یہاں یہ لطیفہ بھی صادق آتا ہے کہ "عمران خان کے سارے وکیل ایوانوں میں اور خان اڈیالہ میں ہے " یوں کوئی عوام کو متحرک کرنے والا نطر نہیں آرہا جو عوام کو اس بات پر قائل کرئے کہ وہ سول نافرمانی جیسے بڑے جُرم کا ارتکاب کرئے اور ریاستی عتاب کا شکار ہو ، گاندھی کے پیروکار عمران خان کی یہ تحریک چند عمران خان کے نمک حراموں کی بدولت گاندھی کے "نمک مارچ " کی طرح ناکام رہے گی ، اور جو باقی باہر بچے ہیں وہ بھی ریاست کے خلاف بغاوت کے الزام میں اندر ہی جائیں گے ۔
اب رہی بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کی تو ایک بات واضح ہے کہ یہ ترسیلات بیرون ملک رہنے والے یہاں کے خاندانی افراد کی کفالت اور جائیدادوں کی خرید و فروخت کے لیے بھجوائی جاتی ہیں، اس کا براہ راست فائدہ وصول کنندہ اور بلا واسطہ حکومت کو فائدہ ہوتا ہے، اب اگر یہ ترسیلات نہیں آئیں گی، تو کون تحریک انصاف کے خلاف ہوگا وہ جو براہ راست یہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر