ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت خود تو100فیصدٹھیک نہیں ہوتی مگر ہمیں حکمران 101فیصدٹھیک چاہئیں،ہمیں 5سال یہی تنقید کرتے گزر جاتے ہیں کہ ہمیں حکمران اچھے نہیں ملے،یہی وجہ ہے کہ ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کو جارہاہے،ترقی کی رفتار تو درکنار،تنزلی ہورہی ہے وغیرہ،جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔۔کیا ہم نے کبھی ووٹ کاسٹ کرتے وقت یہ بات سوچی ہے کہ ہم کس بنا پر ایک شخص کو رکن اسمبلی منتخب کررہے ہیں،بیلٹ پیپر پرچھپے نشانات میں سے کون سا نشان ہمارے لیے بھلائی کانشان ثابت ہوگا۔
پاکستان میں عام طورپر ہوتا یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وفاداریوں کی بنا پر ووٹ کاسٹ کردیاجاتاہے یہ سوچے بغیر کہ یہی نمائندے حکومت بنائیں گے اور اگر ان میں وہ اہلیت ہی نہیں جو ایک حکمران میں ہونی چاہیے تو پھر ہم کیسے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ ہمارے حکمران اہل ہوں جن کی اس قوم کو ضرورت ہے،کہیں جماعتی وفاداری،کہیں برادری،کہیں دوسرے کو ہرانے،کہیں ترقیاتی کام،کہیں مذہبی رجحان اور کہیں کوئی ایسی ہی وجہ کی بنا پر ہم ایک ووٹ کو اس کے صحیح حقدار تک نہیں پہنچاتے ، ہم خود بددیانتی کی شروعات کردیتے ہیں جس کا ہمیں تب احساس نہیں ہوتا یہ سوچ کر کہ میرے ایک ووٹ سے کیا ہوجائے گا؟،کون سا کوئی دیکھ رہاہے مجھے وغیرہ۔۔۔مگر یاد رکھیں کہ آپ کا ایک ووٹ ہی تبدیلی کا سبب بنتاہے،اگر ہرشخص یہی سوچ کر ووٹ ڈالتا رہے کہ میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا اور مجھے کون سا کوئی دیکھ رہاہے تو یہی سوچ کل کو ملکی سطح پر ناانصافی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ووٹ ایک قومی ذمہ داری ہے اسے غیرذمہ داری سے کسی غیر ذمہ دارامیدوار کو دینا ظلم کے مترادف ہوگا۔
یہاں میں سینئرصحافی سلیم صافی کے بلاگ کا کچھ حصہ شامل کرنا چاہوں گا،انہوں نے جہاں مختلف ادوار کے سروے کو شامل کیا وہی انہوں نے دوہزاراٹھارہ میں ہونے والے ایک سروے کے اعدادوشمار بھی شامل کیے۔جن کے مطابق معلوم ہوتاہے کہ لوگ کس کس بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔2018کے عام انتخابات میں 29فی صد افرادنے ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 31فی صد نے ترقیاتی کاموں کی ، 10 فی صد نے جماعتی وفاداری، 16فی صد نے قابلیت،10فی صد نے دیانت اور مذہبی رجحان، 5فی صد نے برادری، 2فی صد نے کسی اور کو ہرانے جبکہ 2فی صد نے دیگر وجوہات کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا۔
ان سرویز اور اس کے تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی بھی انتخاب میں دیانتداری کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا ہمارے ووٹر کی ترجیح نہیں رہی لیکن ہر کوئی حکمرانوں کی بددیانتی کا رونا رو رہا ہوتا ہے ۔ تمام انتخابات میں ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کی پہلی ترجیح ذاتی سرپرستی ہی ہوا کرتا ہے ۔ دوسرے نمبر پر وہ ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر ووٹ ڈالتا ہے اور تیسرے نمبر پر جماعتی وابستگی آجاتی ہے ۔ قابلیت ان کی چوتھی ترجیح ہے اور دیانت یا مذہبی رجحان ان کی پانچویں ترجیح ہے ۔ ووٹ ڈالتے وقت قابلیت ہمارے ووٹر کی چوتھی جبکہ دیانتداری پانچویں ترجیح ہے لیکن پھر حکمرانوں کی نااہلی کا رونا روتے اور کرپشن پر واویلا کرتے ہیں ۔ ہمیں اگر اہل حکمراں چاہئیں تو اہلیت رکھنے والوں کو ووٹ دینا ہوگا اور اگر دیانتدار حکمران چاہئیں تو دیانتدار امیدواروں کو ووٹ ڈالنا ہوگا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ووٹ ڈالتے وقت تو ہماری ترجیح ذاتی سرپرستی ، ترقیاتی کام، جماعتی وفاداری اور برادری ازم ہو لیکن حکمراں ہمیں اہل اور دیانتدار ملیں ۔ اگر ہمیں اہل اور دیانتدار حکمراں چاہئیں تو پھر دیگر تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر دیانتداری اور اہلیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے ہوں گے۔
دوسری جانب یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ کچھ سادہ لوح افراد انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے جھانسے میں آجاتے ہیں،مثلا ایک امیدوار پورے پانچ سال تک نہ ایوان کے اندر سرگرم نظر آجاتاہے جہاں کوئی قانون سازی میں اس کی قابل ذکر بات ہے اور نہ ہی وہ عوامی نمائندہ ہونے کے باوجود عوام کیساتھ اس سطح پر رابطے میں نظر آتاہے جہاں اسے ہونا چاہیے، وہ پانچ سال بعد اپنے لاؤلشکر کیساتھ گھر،گھر،ڈیرہ،ڈیرہ،گاؤں،گاؤں گھومتاہے،سچے جھوٹے وعدےکرکے سادہ لوح عوام کی توجہ حاصل کرکے ان کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتاہے اور یوں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اپنی رائے بدل لیتی ہے،یہ بھی ہماری ہی غلطی ہے کہ ہم ایک بااثر شخص کو صرف اس بنا پر ووٹ ڈال دیتے ہیں کہ وہ آپ کی بیٹھک،ڈیرے یا گھر کے دروازے تک آگیا،،آپ کیساتھ تصویر بنالی اور گلے لگا لیا۔
ضرور پڑھیں:یہ گاڑی کیسے چلے گی؟
میں پنجاب کے ضلع حافظ آباد کے کچھ امیدواروں کی مثال دینا چاہوں گا، ویسے تو یہ مثال ملک کے طول و عرض میں تقریبا پائی جاتی ہے۔معلوم ہواکہ یونین کونسل چک بھٹی کے ایک چھوٹے سے گاؤں جس میں ووٹرز کی کل تعداد لگ بھگ 50ہوگی لیکن ایک ہی دن میں مختلف امیدواروں کی یکے بعد دیگرے آمد نے اہل دیہہ کو بھی حیران کردیا،سابق دور میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے،ساتھ ہی چیئرمین ٹیوٹا رہنے والے اور حالیہ دورمیں جہانگیر ترین کےجہاز پر سوار مامون جعفر تارڑجنہوں نے پورے پانچ سالوں کے دوران بھول کر بھی اس گاؤں میں قدم نہیں رکھا،حالانکہ یہاں کچی سڑک،نالیوں کے بری حالت سے لوگ عذاب میں مبتلا رہے،درخواستیں بھی دی گئیں مگر محترم موصوف نے چک بھٹی سے آگے کبھی قدم تک نہ رکھا اور پھر 2024کے الیکشن میں مامون جعفر کے دل میں یہاں ووٹرز کی محبت جاگ اٹھی اور بغلگیر ہونے قدم رنجھا فرمایا ، تمام مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کراکر لوگوں کو رام کرنے کی کوشش کی،ووٹرز چونکہ سادہ لوح ہوتے ہیں ظاہر ہے انہوں نے ہاں میں سرہلایا اور جان چھڑائی،ابھی چائے کے برتن دھلے نہ تھے کہ نون لیگ کا قافلہ بھی پہنچ گیا-
بھٹی برادران جنہوں نے تقریبا بارہ سال قبل یہاں سولنگ لگوانے کی کوشش کی جو ادھوری چھوڑکر چلے گئے پھر مڑ کر خبر تک نہ لی اور یوں ان کا ادھورا منصوبہ اسداللہ ارائیں نے مکمل کرایا،سوئی گیس کے پائپ ڈالنے کے چکر میں سولنگ کا بیڑا غرق کرنے والے پھر اس گاؤں میں لاؤلشکر سمیت پہنچ گئے اور وعدے،دعوے کرکے ووٹ انہیں کو کاسٹ کرنے کی تلقین کرتے رہے،پرانے تعلقات اور دیرینہ ریلیشن شپ کے تذکرے،حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سن 90میں یہ گاؤں بجلی سے محروم تھا،پچانویں میں سرکاری سطح پر ہرگاؤں میں بجلی لگانے کی مہم زوروں پر تھی تو تب بھٹی کام آئے تھے،نہ تارڑ،حتیٰ کہ افضل حسین تارڑ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں آپ کیلئے بجلی کے تارلے کرتو نہیں بیٹھا ہوا،تب یہاں کے مکینوں نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرکے رشوت کے بدلے بجلی لگوائی،یہ گاؤں آج بھی رشوت کی بنیاد پر لگی بجلی سے مستفید ہورہاہے،حالانکہ یہ بجلی سرکاری سکیم کے تحت ہی لگی تھی مگر کرپٹ افسران نے پیسے لے کر ہی بجلی لگوائی اور میٹر کے لیے بھی خوب جیبیں بھریں۔ یہ ہمارا نظام ہے،یہ ہمارے عوام نمائندے ہیں اور یہ ہم ہیں۔
پھر بھی میں کہوں گا اور میری ذمہ داری ہے کہ پاکستان بھر کے عوام کو مشورہ دوں،کسی دباؤ میں نہ آئیں،کسی وابستگی کو نہ دیکھیں،صرف میرٹ اور اصل حقدار کو ووٹ دیں تاکہ حقیقی تبدیلی آئے اور ملک کو اچھے حکمران میسر آئیں۔
نوٹ:ادارے کا رائٹر کے ذاتی خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر