سینٹ۔۔اپوزیشن کی مالیاتی ضمنی بل 2021پر سخت تنقید ۔۔حکومتی ارکان کا دفاع

Jan 07, 2022 | 20:43:PM

 (24نیوز)سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے مالیاتی ضمنی بل 2021پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی کا طوفان آئےگا ،حکومت آئی ایم ایف کے بارے میں بھی غلط تشریح کرتی ہے، ،ہم بھی ایک خود مختار ملک ہیں ،اس قانون سازی کے بعد حکومت اسٹیٹ بینک سے بھی قرضہ نہیں لے سکے گی، عوام معاشی دہشتگردی کا حکومت سے حساب لیں گے جبکہ حکومتی ارکان نے جواب دیتے ہوئے کہاہے کہ منی بجٹ میں کچھ نہیں ،اس بارے غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے۔ 
جمعہ کو سینٹ میں مالیاتی ضمنی بل 2021 پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ منی بجٹ سے ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھے گی،منی بجٹ کے بعد بہت سی اشیا مہنگی ہونگی،آئی ایم ایف کے کہنے پر ملکی معیشت کا گلا گونٹھا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ 150 اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ،350 ارب روپے کے ٹیکسز کا نفاذکیا جارہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کو سر انڈر کر دیا گیا،ایک طرف بتایا جا رہا ہے کہ ایکسپورٹ بڑھ رہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت آئی ایم ایف کے آگے ملکی خود مختاری سر نڈر کر رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ منی بجٹ پاکستان کے ساتھ معاشی دہشت گردی ہے اب لوگ کرائم کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد ایک دن کے دوران اربوں کا بوجھ ڈالا گیا،عوام اس معاشی دہشتگردی کا اس حکومت سے بدلہ لیں گے ۔ 
سینیٹر رخسانہ زبیری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس بڑھا رہے ہیں،کیا آئی ایم ایف عام آدمی پر ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کا کہتا ہے؟ ۔ انہوںنے کہاکہ 16 دسمبر کو برازیل نے آئی ایم ایف کو ملک سے نکل جانے کو کہا، ہم بھی ایک خود مختار ملک ہیں ،اس قانون سازی کے بعد حکومت اسٹیٹ بینک سے بھی قرضہ نہیں لے سکے گی۔ انہوںنے کہاکہ منی بجٹ میں 30 سی ڈائریکٹوریٹ ڈیجیٹل انوائسنگ کا نظام تشکیل دیا جارہا ہے،آپ بین الاقوامی فوڈ سروسز پر ٹیکس لگائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ لگژریز پر ٹیکس لگا دیں، غیر ملکی مصنوعات پر پابندی لگا دیں،پارلیمنٹرینز کو بھی سادگی اختیار کرنا چاہئے،ائیر پورٹ آنے جانے کےلئے پارلیمنٹرینز پر ایک ہفتہ میں ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوتا ہے،اب ہمیں بھی ہوش آنا چاہئے اس قسم کے اخراجات ختم ہونے چاہئیں ۔
سینیٹر زرقا تیمور نے کہاکہ مالیاتی بل سے پہلے کشمیر پر بات کرنا چاہوں گی، بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ قوانین نافذ کررکھے ہیں، چھوٹے چھوٹے کشمیری بچوں کو غیر قانونی طور پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ ہمیں بطور پارلیمنٹرین ان ظالمانہ قوانین کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ 22 ویں پروگرام میں گیا ہے، ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیشہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کو کیوں مجبور ہوئے، جو ممالک آئی ایم ایف پروگرام میں جاتے ہیں وہاں کرپشن انڈیکس زیادہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ سٹیٹ بینک بل پر تنقید سمجھ سے بالاتر ہے، ہم نے معیشت ٹھیک کرنی ہے تو اصلاحات کرنا ہونگی۔
اے این پی کے سینیٹر ہدایت الرحمان نے کہا کہ ہر شعبے میں نے تحاشا ٹیکسز عائد کردئیے گئے ہیں، وزیراعظم مجھے آدھے گھنٹے کا وقت دیں، بہت اہم تجاویز دوں گا۔ انہوںنے کہاکہ ٹیکس زیادہ لگائیں گے تو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں آئیں گے۔ انہوںنے کہاکہ جس کا جو کام چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو،ان سے اچھے کی امید نہ رکھیں جو وعدے کئے پورے کر چکے ہیں ،کہتا تھا رلاو¿ں گا آج سب رورہے ہیں،کہتا تھا کہ آئی ایم ایف پر خودکشی کرونگا آج سب خودکشیاں کر رہے،اور آپ لوگ کیا چاہتے ہیں وہ تو اپنے وعدے پورا کر رہا ہے۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ منی بجٹ میں کچھ نہیں اس بارے غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے،آئی ایم ایف سے قرضوں کو 82 فیصد گزشتہ ادوار حکومت میں لیا گیا،قوم کو گمراہ نہ کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ سچ ہے وزیر اعظم کو کہا گیا کہ 7 سو ارب کا ٹیکس لگایا جائے،وزیر اعظم نے کہا صرف ساڑھے 3 سو ارب کا ٹیکس لگایا جائے ،اس سے امیر سے ٹیکس لیکر حکومت غریب پر لگائے گی،2018 میں پاکستان کہاں تھا یہ دیکھنا ضروری ہے،مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی نے ملک کا دیوالیہ کیا ،1947 سے لیکر 2008 تک کا قرضہ 8 ہزار ارب اور اسکے بعد کا قرضہ 30 ہزار ارب روپے تک یہ لیکر گئے ،آصف زرداری نے 50 دورے دبئی اور نواز شریف نے 25 دورے لندن کے کئے ،عوام کے حالات نیچے گئے اور انکے حالات اوپر گئے ۔انہوںنے کہاکہ آج کے پاکستان میں عام آدمی کی بحالی ہورہی ہے ،آج ہمارے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے ،ہیلتھ کارڈ کے بعد 10 لاکھ روپے فی خاندان حکومت دے رہی ہے ،پورا خیبر پختون ہیلتھ کارڈ کورڈ ہے اب پنجاب بھی ہوجائے گا۔ انہوںنے کہاکہ امریکا جیسے ملک بھی یونیورسل ہیلتھ کوریج نہیں دے سکے ،انکے دور میں کورونا آیا ہوتا تو ڈالر 270 کا ہوتا۔ بعد ازاں سینٹ کا اجلاس پیر کی سہہ پہر تین بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔
 یہ بھی پڑھیں۔

مزیدخبریں