کہا جاتا ہے "لڑائی مجاں دی تے نقصان بوٹے دا" پنجاب میں نمبر گیمز جاری ہے کون مسٹر 420 ہے اور کون 9،2،11 ایسی دلچسپ صورتحال ہے، دونوں جانب سے ہدف ایک ہی ہے، یعنی پرویز الہی، یہ وہ بوٹا ہے جس کا نقصان ہو رہا ہے کہ اصل میں تو پنجاب کے میدانوں میں دو بڑی سیاسی بھینسیں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف اقتدار کی لڑائی لڑ رہی ہیں اور بوٹا (پرویز الہیٰ ) کبھی ایک جانب گرتا ہے تو کبھی دوسری جانب اب جیت پی ایم ایل این کی ہو یا پی ٹی آئی کی بوٹا بچ نہ پائے گا۔
پرویزا لہیٰ کی یہ جلد ختم ہونے والی کہانی کا آغاز 26 نومبر کو اُس وقت ہوا جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ناکام لانگ مارچ کے اختتام پر پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے اپنی زخمی ٹانگ کے پاؤں پر کلہاڑی نہیں کلہاڑا مار لیا۔ بین ویسے ہی جیسے انہوں نے قومی اسمبلی میں آنے والی تحریک اعدم اعتماد پر پر کیا تھا کبھی امریکی سازش کا بیانیہ بنایا تو کبھی اپنے ہی ممبران کے بکنے کا شور مچایا کبھی سیکر سے غیر آئینی کام کرایا تو کبھی جلسے جلوسوں کی راہ اختیار کی تھی لیکن ان کی یہ جوشیلی فلم "چل میرا پُت ون " ثابت ہوئی انہیں وزارت عظمیٰ سے نکالا گیا لیکن انہوں نے اپنی شکست کو تسلیم نہ کرتے ہوئے تمام اراکین اسمبلی کے استعفے جمع کرا دیئے نتیجہ اسمبلی چلنے کی پلیٹ خود اپنی اپوزیشن کے ہاتھ میں دے دی۔ چند دیرینہ دوستوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی ناراض کیا، حکومت گرانے کے لیے لانگ مارچ کا پتہ پھینکا، اسلام آباد اور پنڈی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا، لانگ مارچ میں شمولیت کے لیے لوگوں سے کبھی حلف لیے اور کبھی مذہبی ٹچ لگایا، میر جعفر اور میر صادق والا بیانیہ گھرا اور کچھ نہ ہوا تو اپنی ہی اسمبلیوں کو توڑنے کا اعلان کیا۔
اعلان تو ہوگیا مگر اس کے بعد تاریخ پہ تاریخ دی گئی، ڈرایا گیا دھمکایا گیا، کبھی ایک نعرہ لگایا تو کبھی دوسرے سے کام چلایا۔ دوسری جانب پرویز الہیٰ بھی اسمبلی توڑنے کے مخالف رہے اور اپنے بیٹے مونس الہیٰ کو چیئرمین تحریک انصاف کو باتوں میں الجھائے رکھنے پہ معمور رکھا اور یوں کرتے کرتے معاملہ عدلات عالیہ یعنی لاہور ہائیکورٹ میں گیا، جہاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پرویز الہی کی درخواست پر سماعت کے لیے نیا فل بینچ تشکیل دیا، جس میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ شامل جبکہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس چویدری محمد اقبال ، جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل تھے۔ بنچ نے دونوں جانب کے وکلائ کو سُنا، دلچسپ سماعت رہی، ریمارکس سے اندازہ ہوا کہ گورنر کا اقدام آئینی ہے، اب وزیر اعلیٰ پنجاب کہہ رہے ہیں اور انہوں نے کپتان کے حکم پر اپنی چلتی چلاتی حکومت کو ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
عدالت میں اس مقدمے کی سماعت 11 جنوری کو ہونا ہے جس میں عدالت فیصلہ کرے گی کہ گورنر پنجاب بلیغ الرخمٰن کا پرویز الہیٰ کو یہ کہنا کہ وہ اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں آئینی ہے یا غیر آئینی، ابھی تک ہماری جتنے بھی آئینی ماہرین سے بات ہوئی ہے، اُن کے مطابق آئین اس حوالے سے اتنا ہی واضع ہے جتنا صاف یہ بتانا ہے کہ یہ جنوری کا مہینہ ہے، آئین واضع طور پہ گورنر کو یہ اختیار دیتا ہے لیکن اس کی دیگر قانونی پہلوں کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
اب آئیں سیاسی پنڈتوں کی جانب جن کا تعلق خواہ مسلم لیگ ن سے ہو یا پی ٹی آئی سے دونوں جانب کا موقف ہے کہ پرویز الہیٰ اگر سیاست کی پچ پر کھیلنے آئے تو اُنہیں آوٹ ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا اور 11 جنوری کے بعد اُن کے پاس صرف ایک آپشن بچ جائے گا کہ وہ اسمبلی توڑ دیں۔
اسمبلی کے ختم کرنے کے حوالے سے تو شائد پرویز الہیٰ تیار بھی ہوجاتے لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ مقتدر حلقے ہیں جو ملک میں کسی آئنی بحران اور سیاسی کشمکش کو ملکی سالمیت کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں، ان حلقوں سے ذرائع کے مطابق پرویز الہیٰ دو ایک بار مل کر اس بات کی استدعا بھی کرچکے ہیں کہ وہ کوئی ایسا اقدام کریں کہ جس سے اعتماد یا عدم اعتماد کا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی اُن کی حکومت بچی رہے، شائد اُنہیں اُس بڑے گھر سے انکار ہوا ہے جو انہوں نے اب یہ کہہ دیا کہ گورنر کا نوٹفیکیشن ہی غیر قانونی ہے اس لیے وہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کے اسی رویے کے باعث اب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے وہی پرانا پتا کھیلا ہے کہ اگر اسمبلی نہ ٹوٹی تو وہ اپنے اراکین کا استعفیٰ پنجاب اسمبلی سے دلوائیں گے یہ وہی سیاسی غلطی کا اعادہ ہوگا جو وہ قومی اسمبلی میں کر چکے ہیں، اطلاعات تو یہ ہیں کہ پچاس فیصد اراکین استعفوں کی مخالفت کرچکے ہیں جبکہ 14 کے قریب ویسے ہی بغاوت پر آمادہ ہیں جیسے مرکز میں راجہ ریاض کی قیادت میں کرچکے ہیں۔ پرویز الہیٰ کو کوئی درمیانی رستہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہیں۔ یوں آنے والے دو ایک روز میں پنجاب کی سیاست کا اونٹ جس مرضی کروٹ پر بیٹھے، اس کے موجودہ سوار پرویز الہیٰ کے گرنے کا امکان ہے اور شاید وہ آخری مرتبہ وزارت اعلیٰ سے ہٹائے جائیں کہ اس کے بعد اُن کے سیاست میں رہنے کے امکانات تو موجود ہیں۔ وزارت اعلیٰ کہ امکانات بحرحال معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔