حکمران کوئی بھی ہو وہ کسی نا کسی حوالے سے چند اقدامات ایسے ضرور کرتا ہے جو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے کہلاتے ہیں، ایسے بڑے منصوبوں کو عام فہم زبان میں میگا پراجیکٹ کہا جاتا ہے۔
میں نے اپنے چند دن پہلے کے بلاگ میں عمران خان کے چاہنے والوں سے یہ سوال پوچھا تھا کہ وہ مجھے دور عمرانی کے چند میگا پراجیکٹس کا بتائیں، میرے دوستوں نے جو جواب دیا وہ بھی لکھ دیا لیکن اس کے باوجود یہ درخواست بھی رہی کہ کچھ مزید پراجیکٹس کا بھی پتہ چلے میری اس آفر کو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ورکرز نے سنجیدگی سے دیکھا اور ٹوئٹر پر اس حوالے سے ٹرینڈ ہی بنا ڈالا۔
اس ٹرینڈ کا بننا تھا کہ الامان الحفیظ ایسے ایسے میگا پراجیکٹس کا ذکر کیا گیا کہ جنہیں میں لکھنا بھی چاہوں تو اس کیلئے بہت زیادہ وقت اور وسائل کا استعمال کرنا پڑے گا اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ٹوئٹر پر گنوائے گئے دور عمرانی کے میگا پراجیکٹس کے بعد جو ٹوئٹ آئے اُن میں سے چند ایک کو اس بلاگ کا حصہ بنایا جائے، سب کو اس لیے نہیں کہ اتنا زیادہ مواد ہے کہ مجھے لکھنے کی اور ہنسنے کی ہمت ہی نہیں۔ اس لیے میں ویب سائٹ والوں سے درخواست کی کہ ان لنکس کو جو میں اس بلاگ کا حصہ بنا رہا ہوں ضرور شامل رکھیں تاکہ میرے پڑھنے والے بھی ان اہم معلومات سے محروم نہ رہیں۔
تو ملک کو اکسویں صدی سے آگے لیجانے کے کیا کیا خوبصورت پلان تھے میرے کپتان کے، کہ دنیا بھر کے معیشت دان، سائنسدان اور سیاست دان منہ میں اُنگلیاں دابے ان پراجیکٹس کو دیکھ رہے تھے، ان میں مرغیاں پال، کٹے پال، انڈے دینے، بجلی کے اوپر بیٹھی ہوئی بجلی جیسے سیج پر بیٹھی ہوئی دلہن، بھنگ کی کاشت اور اس کے استعمال سے ملک کی ترقی اور سب سے بڑھ کر وزیر اعظم پاکستان نے وہ پلان پیش کیا جس کا خیال قرون وسطیٰ سے لیکر اب تک کسی کے دماغ تو کیا وہم و گمان میں بھی نہیں آیا ہوگا اور یہ منصوبہ تھا پیٹرول پمپس میں بنائے گئے واش رومز کی صفائی پر براہ راست شکائت درج کرانے کا۔ جس کیلئے ایک ادارہ بھی بنایا جانا تھا اور شکایت کے ازالے کیلئے موبائل ٹیمیں بھی تشکیل دی جانی تھیں لیکن دشمن ملکوں کو یہ پراجیکٹ بھی ایک آنکھ نا بھایا۔
کپتان نے تو ہمیں یہ بھی بتایا کہ غریب افراد کو گائے کا بچہ جسے بچھڑا کہا جاتا دیا جائے گا اور بھینس دی جائے گی تاکہ کٹا حاصل ہو اور یوں گوشت اور دودھ کی پیداوار بڑھائی جائے گی، کپتان نے اس مقصد کیلئے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے کا بھی اقدام کیا لیکن دو ایک بھینس کے بعد کپتان کے منصوبے کا وہی بنا کہ گئی بھینس پانی میں اور یوں یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہوگیا۔
کپتان عمران خان جنہیں عالم اسلام کا واحد ہیرو ہونے کا اعزاز حاصل ہے انہیں امت مسلماء کی دفاعی ضروریات کا بھی بھرپور خیال تھا اس مقصد کیلئے انہوں نے جرمنی کی سرحد کو جاپان کے ساتھ ملا دیا تاکہ یورپ میں ترکی کی حکمرانی ہو وہ ایران کو سعودی عرب سے ملانا چاہتے تھے لیکن جو اللہ کی مرضی۔
یہ سہرا چینی صدر کے سر سجا، آئیڈیا ہمارا تھا لیکن اسے چینیوں نے چرا کہ چائنہ کا بنا کر دونوں ملکوں میں صلح کرالی لیکن عمران خان ہمت ہارنے والے کہاں تھے انہوں نے جدید مزائیل ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر روس، امریکہ اور یورپ کو ششدر کردیا اس مزائیل کا تجربہ بھی کیا گیا جو زیر نظر ٹوئٹ میں دکھا یا بھی گیا ہے۔
اب آجائیں سب سے بڑے پراجیکٹ کی جانب جسے اگر اس دور عمرانی کا سگنیچر منصوبہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا اور وہ منصوبہ تھا صحت کارڈ اب کیا کیا جائے شریکے کا کہ اس منصوبے کو بھی نواز شریف کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ خالی کپتان ہی میگا پراجیکٹس دیتے رہے ہیں اُن کے کھلاڑی اور تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر بھی میگا پراجیکٹس میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، انہوں نے صافی پانی کا ایسا پراجیکٹ لگایا کہ دنیا بھر میں پینے کے پانی والے بڑے مسئلے کو ایک منٹ میں حل کیا جاسکتا ہے، زیر نظر ٹوئٹ میں اسی پراجیکٹ کے افتتاح کو دکھایا گیا ہے آپ بھی دیکھ لیں۔
عمران خان کو بطور وزیراعظم دوبارہ دیکھنے اور دو تہائی اکثریت دلانے والے افراد یونہی کپتان کے دیوانے نہیں ہیں اور اس کی بڑی وجہ کیا ہے وہ آپ اس ٹوئٹ سے بخوبی جان سکتے ہیں۔
وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ لاسٹ بٹ ناٹ دی لیسٹ سب سے نمایاں پراجیکٹ تھا پنجاب کو وسیم اکرم پلس کا تحفہ دینا اس میگا منصوبے نے تبادلوں، ترقیوں اور اپنے گاؤں کی دویلپمنٹ کے وہ وہ شگوفے کھلائے کے آخرکار وہ بھی گڈبائے کہنے کو تیار ہوگئے۔
تو صاحبو آپ نے دیکھا سنہری ترقیوں کے اس دور کو جانے کس کی نظر لگ گئی اور پاکستان ایسے جہاندیدہ، یورپ دیدہ، اسلام دیدہ، حلال و حرام دیدہ دانشور سے محروم ہوگیا، اگر یہ پراجیکٹ مکمل ہوجاتے تو پاکستان چاند پر پہنچ جاتا کیوں کہ اہل زمین میں کہاں سکت تھی کے ان منصوبوں کو چلا پاتے۔