ثاقب نثار نے عمران خان کو جزوی ’ صادق اور امین‘ کیسے قرار دیا ؟ حقائق سامنے آگئے
Stay tuned with 24 News HD Android App
(اظہر تھراج )سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کہتے ہیں کہ میں نے عمران خان کو مکمل طور پر ’صادق اور امین ‘قرار نہیں دیا ،جسٹس(ر)ثاقب نثار نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو جزوی طور پر صادق اور امین کیسے قرار دیا ؟ انویسٹی گ گیٹو صحافی عمر چیمہ حقائق سامنے لے آئے ۔
سینئر صحافی نے اپنے وی لاگ میں بتایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ن لیگ کے ایم این اے حنیف عباسی کی طرف سے 2017 میں دائر کیے گئے کیس کی بات کررہے ہیں ،اس پٹیشن میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے اثاثے چھپائے ہیں ۔بیلسنگ ایکٹ میں جہانگیر ترین نااہل ہوگئے تھے لیکن عمران خان ’صادق اور امین‘قرار پائے تھے۔
عمران خان کے بارے میں کیا ایشوز تھے؟ پہلا ایشو فارن فنڈنگ کا تھا ،اس کیس میں اکرم شیخ حنیف عباسی کے وکیل تھے،فارن فنڈنگ میں کافی سارا مواد تھا ،جو اس وقت فارن فنڈنگ کیس میں مسئلہ اٹھایا جاچکا ہے یہ اس وقت بھی سامنے آیا تھا،اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کررہا تھا ،جسٹس (ر)ثاقب نثار کے علاوہ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کا حصہ تھے ۔پہلے دو جج ریٹائر ہوچکے ہیں اور تیسرے اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان ہیں ۔
جسٹس ثاقب نثار نے جہاں جہاں عمران خان کیخلاف چیزیں آرہی تھیں ان کو کیس سے نکال دیا اور کہا کہ پانچ سال کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرلی جائے ۔دوسری بات یہ کی کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا ،اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ پارٹی کا نہیں اسے انفرادی طور پر دیکھا جائے،عمران خان کے بارے میں ریکارڈ موجود ہے اس کا انفرادی حیثیت میں فیصلہ کیا جائے ۔ثاقب نثار نے الیکشن کمیشن کو بھی تجویز دینے کی کوشش کی کہ پانچ سال سے پیچھے نہ جایا جائے۔بعد میں اکبر ایس بابر کی پٹیشن میں چیزیں سامنے آئیں ۔
ضرور پڑھیں :فواد چوہدری کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خواتین کی تذلیل کا سلسلہ نہ رک سکا
دوسرا ایشو بنی گالہ کا گھر ، نیازی سروسز ہے،جب پانامہ پیپرز آئے تو عمران خان نے ٹوئیٹ کیا کہ آفشور کمپنیاں اس لئے بنائی جاتی ہیں تاکہ کالا دھن چھپایا جاسکے۔پھر خود ان کی اپنی آفشور کمپنی نیازی سروسز سامنے آگئی ۔ اس وقت عمران خان نے کہا کہ یہ تو میں نے اپنے اکاؤنٹنٹ کے کہنے پر بنائی ۔یہ کمپنی عمران خان نے خود سے ڈکلئیر نہیں کی تھی ،2000میں ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے یہ کمپنی ظاہر کی تھی ۔پاکستان میں یہ پہلی کمپنی تھی ، عمران خان خان نے یہ 1983 میں قائم ہوئی تھی ۔2017 میں جب کیس کی سماعت کے دوران یہ معاملہ آیا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ عمران خان تو اس کے ڈائر یکٹر نہیں ،ان کو یہ کمپنی ڈکلئیر کرنے کی ضرورت نہیں ۔عمر چیمہ نے سوال اٹھایا کہ اگر عمران خان اس کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں تو ایمنسٹی سکیم سے فائدہ کیسے اٹھایا؟
بنی گالہ کی زمین عمران خان کے پاس کیسے آئی؟ عمران خان نے جمائما خان سے کیسے پیسے لئے اور کیسے واپس کیے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے،جمائما خان سے پیسے لے کر عمران خان کو دینے والا اور پھر عمران خان سے پیسے لے کر جمائما خان کو دینے والا ایک ہی شخص تھا ،وہ عمران خان کا دوست راشد خان تھا،اس وقت عدالت میں جس جس بینک کا ریکارڈ جمع کروایا گیا اس وقت یہ برانچیں بند ہوچکی تھیں ۔ریکارڈ کی ویری فکیشن بھی نہیں کروائی گئی تھی ،عدالتی رولز کے تحت بغیر تصدیق کے دستاویزات ریکارڈ کا حصہ نہیں بنائی جاسکتیں لیکن جسٹس ثاقب نثار نے بغیر تصدیق کے ڈاکومنٹس کو ریکارڈ کا حصہ بنایا ۔جو رسیدیں دی گئیں وہ کمپوٹرائزڈ تھیں لیکن جب یہ زمین خریدی گئی تب تو لینڈ ریکارڈ کا سسٹم کمپوٹرائزڈ ہی نہیں تھا ۔عمر چیمہ بتاتے ہیں کہ آج دیکھا جائے تو یہ اراضی جیسے خریدی گئی ایک لطیفہ ہی لگتی ہے۔
عمر چیمہ بتاتے ہیں کہ مجھے کسی بندے نے بتایا کہ ایک جگہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے بات ہورہی تھی ۔وہ کسی سے فون پر بات کررہے تھے کہ ’اساں تے کہہ دتا اے تسی ڈاکو منٹ جمع کرادیو ،اسی مہر لادیاں گے‘۔وی لاگر بتاتے ہیں کہ بعد میں جب میں اکرم شیخ کی طرف گیا تو وہاں یہ ڈاکومنٹ دیکھے ،سب کے سب غیر تصدیق شدہ تھے،اکرم شیخ نے بتایا کہ ہم نے نظر ثانی کی اپیل کی تھی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ جب تک یہ ڈاکومنٹ جعلی ثابت نہیں ہوجاتے، ہم عمران خان کو ’صادق اور امین ‘قرار دیتے ہیں ۔یہ عدالتی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے چیزوں کو ادھر ،ادھر کرکے عمران خان کو ’صادق اور امین‘قرار دیا ۔
یہ معاملہ دوبارہ اس لئے زیر بحث ہے کہ ایک ٹی وی انٹرویو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ عمران خان کو مکمل طور پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا، اسے سیاسی رنگ دیا گیا، عمران خان کو 3 نکا ت پر صادق اور امین قرار دیا تھا، اکرم شیخ نے عمران خان سے متعلق 3 نکات لکھ کر دیے کہ ان پر فیصلہ کیا جائے، تینوں نکات پر عمران خان صادق اور امین ثابت ہوئے تھے۔
جسٹس (ر) ثاقب نثار سے سوال کیا گیا کہ پاناما کیس میں آپ پر نواز شریف کو نااہل کرانے کے لیے جنرل (ر) فیض نے دباؤ ڈالا؟ اس پر ثاقب نثار نے کہا کہ جنرل (ر) فیض کون ہے جو مجھ پر دباؤ ڈالتا؟، میں جنرل (ر) باجوہ سے اس دعوے کے بارے میں بات کروں گا۔ یہ کہتے ہیں میں عمران کے لیے عدلیہ میں لابنگ کر رہا ہوں، میں کیوں عمران کے لیے عدلیہ میں لابنگ کروں گا؟ مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔
ثاقب نثار نے کہا کہ میں اب کسی کو انٹریو نہیں دوں گا، میرے مرنے کے بعد ایک کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے،1997سے لے کر چیف جسٹس کے عہدے تک کی ساری کہانی لکھوں گا۔