پڑوسی ملکوں سے تجارت میں پاکستان اور پاکستانیوں کا کتنا فائدہ ہے؟

Mar 07, 2024 | 16:47:PM

اپنے وطن سے بڑھ کر کسی شہری کی اور کوئی ترجیح کیا ہوسکتی ہے، وہ دعا، وہ تمنا جو بچپن سے ہی ہمارے دلوں میں پلتی ہے ’کہ وقتِ آخر‘  اپنے وطن کی مٹی اوڑھ کر ہم سوئیں، کتنی خوبصورت دعا، کتنی خوبصورت تمنا ہے۔ جوان ہوتے اور ادھیڑ عمری کو پہنچتے پہنچتے یہ پڑھنے اور دیکھنے کو پھر کیا مل رہا ہے۔ ایک خبر ہے اور گیلپ والوں کا سروے۔ بتایا جاتا ہے کہ 47 فیصد پاکستانی ملک کے مستقبل سے ناامیدی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یاخدا! وطن سے محبت کرنے والے ہم لوگ چونک اٹھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ 47 فیصد پاکستانی ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟

اقوام متحدہ کا سروے کہتا ہے پاکستان میں 64 فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے۔ دن بدن خراب ہوتی جاتی ملکی معاشی حالت نے سہانے مستقبل کا خواب دیکھنے والوں کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا سامنا بچپن میں نہیں کرنا پڑتا تھا۔ بجلی اور گیس کے بڑے بڑے بل بھی بچپن میں نہیں آتے تھے۔ بدترین مہنگائی کارخانے اور فیکٹریاں بند کر رہی ہے۔ گلی گلی میں افراتفری، نفسانفسی، خود غرضی اور آپا دھاپی کا دور دورہ ہے۔ کوئی بھی سروے، کوئی بھی خبر ہمارے سامنے اچانک آتی ہے۔ فلاں جگہ فلاں حادثے کی خبر، فاقوں کی، لوٹ مار میں اضافے کی، خودکشیوں کی، اپنا وطن چھوڑ کر جانے کی خبر حادثات مگر اچانک نہیں ہوتے۔

یہ 9 سال پہلے کی بات ہے۔ اُس وقت کے وزیراعظم نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر، موجودہ بدترین معاشی صورتحال کی پیش گوئی کردی تھی اور پھر خطرے سے نمٹنے کی قائدانہ صلاحیت دکھاتے ہوئے اس کے آگے بند باندھنے کا حوصلہ بھی دکھایا تھا۔ وہ 27 دسمبر 2015ء کا دن تھا۔ جب جمعہ کی صبح ساڑھے 11 بجے  وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم نریندر مودی اچانک ٹیلیفون پر بات کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے افغانستان میں ناشتہ کرنے کے بعد خود چل کر پاکستان آکر ڈنر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور پھر دونوں پڑوسی ملکوں کے وزراء اعظم خطے کے لوگوں کی بھلائی اور اپنے اپنے ملکوں کی ترقی کیلئے لاہور جاتی عمرہ میں سر جوڑ کر بیٹھے دیکھے گئے۔ اُس وقت پاک انڈیا بیٹ کی صحافتی ذمہ داری نبھاتے وقت مجھ ناچیز سمیت پوری دنیا کا میڈیا اس ملاقات پر دانتوں میں انگلیاں چبائے رہ گیا تھا۔

پاکستانی وزیراعظم کی سیاسی دانشمندی کے سبب 2004ء کے بعد پہلی بار پاکستانی سرزمین پر کسی انڈین وزیراعظم کو ہمارے ملک کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے دیکھا گیا۔ اعتدال پسند نواز شریف کی مقناطیسی حکمت نریندر مودی جیسے مذہبی انتہاء پسند کو کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت کرنے کا حیرت انگیز بیان دینے تک کھینچ لائی تھی۔ ایرانی، افغانی اور چینی صدر بھی ہاتھوں میں تجارتی بیلچے لیے دو طرفہ خوشحالی کی نہریں بہانے کے راستے کھودنے کو تیار بیٹھے تھے۔ بنگلہ دیش سے بھی ٹھنڈی ہوائیں آرہی تھیں۔ ہم نے مگر اُس وزیراعظم کیساتھ کیا سلوک کیا؟ 28 جولائی 2017ء کردیا گیا۔ اُسے دھرنے دھرنے کھیل کر نکال دیا گیا۔ دو روپے کی روٹی، 71 روپے لٹر پٹرول اور 105 روپے ڈالر والا پرانہ پاکستان  نہ رہا۔ آج دھرنے والے بابا پی ٹی آئی جیل میں اور نکالے جانے والے باؤجی ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ پڑوسی ملکوں سے تجارت نہ کھلنے کا نقصان مگر کس کا ہوا؟۔ کیا اس سے ایران کی ترقی میں رخنہ ڈلا؟ افغانستان اور بنگلہ دیش کا کچھ بگڑا؟ چین گھاٹے میں رہا یا پھر چاند پر پہنچ جانے والے انڈیا کا بیڑہ غرق ہوگیا؟ کیا مارے بیچارے پاکستانی ہی نہیں گئے 47 فیصد کی بڑی تعداد میں جو بدترین مہنگائی کے سبب ملک کے مستقبل سے ہی ناامیدی کا شکار ہوگئے ہیں؟

324 سال پہلے کابل سے لیکر ڈھاکہ تک، جہاں آج افغانستان، انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش آتا ہے، اِس سرزمین کی مالک مغل سلطنت دنیا کی سپرپاور تھی یعنی ہمارے آبا دنیا کی 24.4 فیصد جی ڈی پی کے اکلوتے مالک تھے۔ اِس خطہ زمین کا چپہ چپہ، گاؤں گاؤں، شہر شہر ایک دوسرے سے معاشی طور پر جڑا ہونے کے سبب مینوفیکچرنگ حب تھا۔ ہر چیز مقامی طور پر تیار ہوتی اور دنیا بھر میں بکتی تھی۔ باہر سے آتا کچھ نہیں جایا سب کچھ کرتا تھا۔ ایک دن اورنگزیب عالمگیر کا دل دھڑکنا بند ہوا اور اس کیساتھ ہی اس دھرتی پر بسیرا کرنیوالوں کے دلوں میں میل آگیا۔ قوم میں اتحاد نہ رہا۔ سونے کی چڑیا کمزور ہوگئی۔ غیروں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ’لڑائی کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت اپنی اپنی ریاستیں وجود میں لائی گئیں۔ 1700ء میں ایک قوم بن کر سپرپاور کا درجہ حاصل کرنیوالا ہندوستانی معاشرہ ایسا تقسیم در تقسیم ہوا کہ 1947ء تک یہی جی ڈی پی 4 فیصد تک آگئی۔

تاریخ کا سبق ہے ملک اسی وقت کمزور ہوتے ہیں جب عِلم معاشیات کی جگہ عَلم جذباتیت لے لے۔ جب گھر گھر مینوفیکچرنگ کی بجائے بستر پر حال و مستقبل سے بے نیاز پڑے آرام پرست نوجوانوں کے ہاتھوں میں سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کرنے کیلئے موبائل ہوں۔ پڑھی لکھی باشعور افرادی قوت پاکستان میں بے تحاشہ مگر ملک میں کام کرنیکی بجائے باہر جانے کیلئے قطار میں پاسپورٹ آفس کے باہر کھڑی ہوئی لیکن جب مہنگائی فیکٹریاں، کارخانے بند کررہی ہو تو نوجوانوں کو روزگار کیسے ملے گا؟ جب ڈالر آنے کی بجائے باہر ہی جارہے ہوں تو مہنگائی کس طرح کم ہوگی۔ جب تجارت ہی نہیں ہورہی تو ڈالر کہاں سے آئیں گے؟

قصہ مختصر ملکی ترقی اور ملک کے مستقبل سے ناامید ہوئے آدھے کے قریب 47 فیصد پاکستانیوں کو خوشحالی کا سہارا دینے کا فوری اور پائیدار راستہ علاقائی تجارت ہے۔ پھر سے مغل دور کی طرح کابل سے لاہور اور لاہور سے دہلی، وہاں سے بنگال تک تجارت۔ معاشی تجزیہ نگار کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر عمر سلیم کہتے ہیں جس سے شروع شروع میں سالانہ 50 سے 60 ارب ڈالر ہم کما سکتے ہیں۔ عمر سلیم کی یہ خوبی ہے کہ وہ کامیاب بزنس پلاننگ کا نہ صرف وسیع تجربہ رکھتے ہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کا خاندان کئی دہائیوں سے پاکستان کی معاشی ترقی کے متعدد منصوبوں میں جتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا اس کیلئے کیا کرنا ہوگا؟ بولے پاکستان اہم جغرافیائی لوکیشن رکھتا ہے۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔ دوسروں کو دشمن بنانے کی بجائے دوست بنانے، بزنس فرینڈلی پالیسی بنانی ہوگی۔ حکومت فوری تاجروں کی میٹنگ بلائے۔ مریم نوازشریف اورجنید صفدرنے ایک ملاقات میں تجارت کے متعلق بہت حوصلہ افزا باتیں کی تھیں۔ ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ متحد ہوکر پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض سے نجات دلائیں۔ کیوں صرف ایک ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں؟ پاکستان میں اتنا کچھ ہے کہ صرف ایک عطاء آباد جھیل پورے کے پی کے کو بجلی فراہم کرسکتی ہے۔

عمرسلیم نے پاکستان کے روشن مستقبل پر پاکستانیوں کا دوبارہ سے اعتبار مضبوط کرنے کیلئے فوری طور پر 5 اقدامات اٹھانے کا مشورہ دیا ہے۔

سب سے پہلے سرکولرڈیٹ، امپورٹ اور ایکسپورٹ میں واضح فرق، مہنگائی کے چیلنجز اور ڈالر کی بڑھتی قیمت کو بہت آرام سے نیچے لایا جاسکتا ہے۔ ہم اپنی امپورٹ کو کنٹرول کریں۔ سیلز اور ایکسپورٹ کو بڑھا لیں۔ اس کیلئے جو ہم نے دشمنیاں رکھی ہوئی ہیں اس کو دوستی میں بدلا جائے۔ بنگلہ دیش، ایران اور انڈیا کیساتھ دوستی کرکے تجارت کرنی چاہیئے۔ بنگلہ دیش کیساتھ تجارت میں 5 سے 7 ارب ڈالر، ایران کیساتھ ٹریڈ میں بھی 7 ارب ڈالر تک صرف ایک سال میں پاکستان میں لاسکتے ہیں۔

بھارت کیساتھ ہمارا پہننے اور کھانے میں ایک جیسا کلچر ہونے کے وجہ سے بڑی آرام سے بھارت سے 20 ارب ڈالر سالانہ پاکستان لاسکتے ہیں۔ ہم 25 کروڑ ہیں۔ وہ ڈیڑھ ارب۔ ہماری چیزیں وہاں زیادہ بکیں گی۔ پہلےفوری طور پر کشمیر تجارت کا راستہ کھولنا چاہیئے۔ ہمیں زیادہ فائدہ ہوگا۔ آج ہم بزنس فرینڈلی اکانملی فرینڈلی پالیسیز بنانےوالے بنیں۔ جس میں ہماری اکنامک فنڈامنٹل کو فوکس کیاجائے۔ اپنی اکانمی کو سپورٹ کرنے کیلئے بنیادی پالیسی بنائی جائے تو انڈیا میں ہاتھوں ہاتھ پاکستانی اشیاء خریدنے والے خریداری کو تیار بیٹھے ہیں۔ ہم نے اگر جنگ جاری رکھنی ہے تو بارڈر پر رکھیں۔ اکنامکس کو درمیان میں کیوں لاتے ہیں۔ قومی سلامتی کیلئے اچھی معیشت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اچھی معیشت کیلئے ڈالر آنے چاہیئے اور ڈالر کیلئے تاجروں کا ہونا ضروری ہے۔

دوسرے نمبر پر پاکستان کی ترقی کیلئے ملک سے داداگیری کلچر کا خاتمہ۔ ڈیبیٹ کلچر کا آغاز ہونا چاہیئے۔ حکمران پارٹی تاجروں کی فوری میٹنگ بلائے۔ مشورے سنے اورصرف اس لیے مشورے رد نہ ہوں کہ فلاں بندہ بات تو صحیح کر رہا ہے لیکن مجھے وہ پسند نہیں ہے لہٰذا اسکی وہ دلیل، جو چاہے کتنی اچھی ہو، درست نہیں ہے، یہ رویہ ختم ہونا چاہیئے۔

تیسرے نمبر پر اگر حکومت تاجروں کو ٹاسک دے تو ہم چین سے سالانہ 15 ارب ڈالر کی آسانی سے تجارت کرسکتے ہیں۔ چین ہم سے 12 ارب ڈالر تک ہر سال لے جاتا ہے اور ہم اس کو صرف 500 ملین ڈالر کا سامان بیچ پاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نے چین کو سامان بھیجنے کیلئے اپنی بزنس کمیونٹی کو پُش نہیں کیا۔ ان کو بلا کر ٹریڈ میٹنگ نہیں کرائی گئی۔ نہ کوئی ٹاسک دیےگئے۔ اگر حکومتی طور پر شارٹ، مڈ اور لانگ ٹرم پالیسی بنائی جاتی۔ اگر بزنس کمیونٹی کو چیمبرز کو ٹاسک دیےجاتےکہ یہ ٹارگٹ ہے آپ سے ہمیں اتنے بلین ڈالر کا ایکسپورٹ سیل چاہیئے۔ توپاکستان کہاں سے کہاں ہوتا۔

چوتھے نمبر پر ہمارا چوتھا مسئلہ سب سے پہلے پاکستان کیلئے نہ سوچنا ہے۔ پہلے یہ سوچتے ہیں کہ مجھے کیا سیٹ ملےگی۔ میری تختی کہاں لگےگی۔ میرے اثاثے کیسے بڑھ سکیں گے۔ جس دن پاکستان کیلئے سوچنا شروع کیا تو ہمارے پڑوس میں 9 سو بلین ڈالر کا خواب اگر چائے بیچنے والا نریندر مودی دیکھ سکتا ہے تو 9 سو بلین ڈالر لانے کیلئے ہمارے ہاں بھی بہت ہیں۔ مودی نے ٹارگٹ رکھا ہوا ہے کہ اسی سال جون میں وہ سٹیٹ بنک آف انڈیا کو 9 سو بلین ڈالر تک لے جائیگا اور وہ اس منرل تک پہنچتے جا رہے ہیں۔ 10 سال پہلے جب مودی نے یہ ٹارگٹ دیا تو اس وقت انڈیا کے پاس 170 ارب ڈالر تھے۔ اب وہ 660 پر پہنچ چکے ہیں۔

پانچویں نمبر پر ہمارے ہاں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے اور دوسروں کی اچھائیوں سے بھی نہیں سیکھتے۔ ہم اگر اپنے اردگرد کے ممالک کی اچھائیوں سے ہی سیکھ لیں تو کامیاب ہوجائیں۔ ہم میں بیماری یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے دشمن بنا لیتے ہیں۔ ہم میں ’میں‘ کا پرابلم ہے۔۔ ہم میں میں تب نہیں ہوگی جب ہم ہم بنیں گے۔ ہم ہم بنتےنہیں ہیں اور میں کے چکر میں ہی مارے جاتے ہیں۔ آج تک ہم جو مارے جارہے ہیں وہ میں میں ہی مارے جارہے ہیں۔ دنیا جنگجو لوگوں کے ملک افغانستان کے پتھروں میں جا کر پیسہ لگا رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ طالبان سکیورٹی اور بزنس کے تمام آسان راستے فراہم کرتے ہیں۔ چائنہ جیسا ملک افغانستان میں پیسہ لگا رہا ہے۔ انڈیا نے واپس پیسے لگانےشروع کر دیے ہیں۔ ایران بھی وہاں پیسے لگا رہا ہے۔ تو ہمیں کیا ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے تجارت کے ذریعے پاکستان، پاکستانیوں کی ترقی، خوشحالی کے بہت سارے مواقع گنوائے اور ہمارے ہمسائے ممالک نے اپنے لوگوں کی ترقی کیلئے تجارت کا ایک ایک موقع حاصل کیا ہے۔ ملکی معیشت تجارت کے ذریعے ٹھیک ہوسکتی ہے۔ میں نہ مانوں کا مگر کوئی علاج نہیں۔۔

میاں نواز شریف کی رہنمائی میں شہباز شریف نے ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ انڈین وزیراعظم سمیت دیگر پڑوسی ملکوں کی طرف سے مبارکباد کے پیغام آئے ہیں۔ شہباز شریف کو اس جذبہ خیر سگالی کا مدبرانہ طور پر فوری استعمال کرنا چاہیئے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کی معاشی ترقی کیلئے علاقائی تجارتی منڈیوں کے افتتاح کی صورت میں۔ شہباز شریف کی ٹیم میں عطاءاللہ تارڑ جیسے انسان دوست اور عوامی فلاح کا سوچنے والے شامل ہیں۔ جن کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کو مشکل سے نکالو شہباز شریف !

سجاد پیرزادہ لاہور میں مقیم سینئر صحافی، محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ چین اور بھارت میں بھی صحافتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل میڈیا فورم فار پیس اینڈ ہارمونی کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان سے sajjadpeerzada1@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں