6 ستمبر1965 وہ دن تھا جب پوری قوم نے یکسو ہو کر ثابت کیا کہ ملک خداد ناقابل تسخیر ہے۔آج کا دن ہمیں شہدا کی ان لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جب انہوں ارض پاک کی طرف اٹھنے والی ہر میلی نظر کو نہ صرف بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ ان کو اشگاف انداز میں بتایا کہ ارض پاک کی طرف اٹھنے والے ہر قدم کو نہ صرف روکا جائے گا بلکہ اس کا انجام بھی بھگتنا ہوگا۔اس دن ہونیوالی جنگ دشمن قوت کی خلاف تھی۔پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑائی کسی چھپے دشمن یا نا معلوم قوت کیخلاف نہین تھی۔یہ جنگ بارڈر پر لڑی گولہ بارود،توپ خانے کے ساتھ لڑی گئی ۔لیکن آج حالات بدل چکے ہیں ۔اب جنگیں اسلحہ بارود اور دوبدو لڑائی سے نکل آسمان تسخیر کرنے ،معاشی مضبوطی اور ترقی کےحوالے سے لڑی جا رہی ہے۔دہائیوں قبل ہمیں جس دشمن کا سامنا تھا ہمیں آج بھی اس دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔لیکن یہ مقابلہ بارڈر سے زیادہ معاشی میدان میں ہے۔آج ہم یوم دفاع منا رہے ہیں لیکن ہمارے دشمن کے ہاں آج سے دو روز بعد دنیا کے معاشی اور تجارتی لحاظ سے سے بڑے 20 ملکوں کا (جی 20) اجلاس ہونے جا رہا ہے۔وہ چاند پر پہنچ چکے ہیں لیکن ہم آج پاتال کی گہرائیوں میں کہیں کھو گئے ہیں،ہمین آج بھی ،سستی روٹی ،کم قیمت بجلی ،گیس ، اور پٹرول کی تلاش ہے ۔1965 میں ملک کی حفاظت کا ذمہ ہماری بہادر آرمی کے پاس تھا ۔اور آج ملک کو درپیش سخت معاشی مسائل کی کمان بھی آرمی کے سربراہ سنبھال رہےہیں ۔وہ ملک کو اس گہرائیوں سے نکلانے کے پر اعظم ہیں ۔ تاجروں سے ہونے والی ملاقاتوں اور اس کے بعد ہونیوالی کرپٹ عناصر کیخلاف ہونے والی سختی بتا رہی ہے کہ اس بار ایسی بھل صفائی ہوگی کہ اس سے کوئی بچ نہیں پائے گا۔ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام اور سٹے بازی روکنے کے لیے براہ راست ایجنسیز کمان سنبھال چکی ہیں ۔جس کے اثرات بھی نظر آرہے ہیں ۔بجلی چوروں اور چینی اسمگلروں کیخلاف بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے اشارے مل رہے ہیں ۔بتایا جا رہا ہےکہ دوست ممالک بڑی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔صرف دوست عرب ممالک سے ہی 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی امید ہے۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف نے ہمیں مشکل وقت میں ہمارا مالیاتی پیکج روک کر بڑی مشکل سے ایک سٹینڈ بائے ایگریمنٹ کیا۔اس ایگریمنٹ کے تحت 1.2 ارب ڈالر کےحصول کے لیے بھی ناک کی لکیریں نکلوائی ۔کیا وہ مستقبل میں ہم سے کوئی نرمی برتے گا۔یہاں سوال یہ بھی کہ ماضی میں وہ دوست ممالک جن کے بارے میں آج بتایا جا رہا ہے کہ بڑے سرمایہ کاری کرنے والے ہیں ۔انہوں نے بھی محض ایک سے دو ارب ڈالر دینے کے لیے آئی ایم ایف کی منظوری کی شرط لگا دی تھی ۔کیا وہ اب آئی ایم ایف کی منشا اور منظوری کے بغیر اتنی بڑا اقدام اٹھا لینگے۔چین جیسا ملک جن کی دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سویٹر دن ہنی،اور ڈیپر دن سی بتایا جاتا ہے ،اس نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کا کہا۔ کیا وہ بھی ہمیں بغیر اصلاحات کیے مدد فراہم کرے گا۔کیا یہ تمام ممالک کسی گارنٹی کے بغیر اتنی بڑی سرمایہ کاری پر راضی ہو نگئے۔ ہم نے ایسا کونسے اہداف اور اصلاحات کر لی کہ ہمارہ خطہ محفوظ سرمایہ کاری کے موضع بن گیا۔یہاں سوال یہ بھی ہے کہ آرمی چیف نے جن تاجروں سے ملاقاتیں کی ۔ملک کی اکثریت انہیں تاجروں کے بارے میں کچھ اچھے خیال نہیں رکھتی ۔یہی تاجر سابقہ آرمی چیفس کے ساتھ بھی گھنٹوں طویل نشتیں کرتے تھے۔بڑے بڑے پلانز اور اور درآمدات کا یقین دلاتے۔منہ مانگی سبسڈیز لیتے لیکن نتائج صفر کے صفر رہے۔کیا ان تاجروں سے بھی پوچھا گیا کہ ماجی لی جانے والی سبسڈیز اور وعدوں کا کیا بنا۔حقائق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ چینی کی ذخیرہ اندوزی ہو یا ڈالر کی کمی ۔بجلی کی چوری ہو یا اس کے مہنگے منصوبوں سے فائدہ آٹھانا ۔ان سب معاملات میں یہی تاجر حصہ بقدر جسہ وصول کرتے رہے ہیں ۔اس بار ایسا کیا ہے کہ ان کے ساتھ مشاورت اور ان کی رہنما ئی کی ضرورت محسوس ہوئی ۔یہ ایک بار پھر گمراہ کناعداد وشمار پیش کرے گے۔جوٹے وعدوں کی بھرمار کرینگے۔پھر سے بھاری سبسڈیز لینگے اور ملک کو ایک نئے بحران کے سپرد کر کے چلتے بنے گئے ۔
100ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری،آرمی چیف سرگرم، معاشی پلان سامنے آگیا
Sep 07, 2023 | 09:24:AM
Read more!