ہم چاند پر کیوں جائیں؟

تحریر:اظہر تھراج 

Sep 07, 2023 | 10:11:AM

Azhar Thiraj

لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ چوک کے ساتھ ایک بائیو میٹرک کرنے کا ادارہ ہے،جو لوگ پہلی بار بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں ان کے فنگر پرنٹس لئے جاتے ہیں،وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو نوجوانوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں،جن کے چہروں پر مایوسی اور بغاوت کے آثار نمایاں تھے۔جس سے بھی بات کی اس نے اپنے وطن کے حکمرانوں سے مایوسی کا اظہار کیا ،پانچ میں سے ایک فردسیاستدانوں کو کوستے نظر آیا تو باقی چار افراد اداروں میں ہونیوالی کرپشن اور غلط پالیسیوں سے نالاں تھے۔

ساتھ ہی چائے کا کھوکھا تھا وہاں ٹی وی چینل پر خبر چل رہی تھی کہ بھارت نے چاندکے قطب جنوبی پر قدم رکھ لیا ہے،بھارتی اپنی کامیابی کا جشن منارہے ہیں،میرے میں روایتی حب الوطنی نے انگڑائی لی اور یہ خبر ماننے سے انکار کردیا پھر جب سوشل میڈیا دیکھا اور دنیا سے تصدیقی خبریں اور بھارتی عوام کو مبارکباد کے پیغامات دیکھے تو یقین آیا۔

اسی اثنا میں میری نظر سے ایک رپورٹ گزری جو قومی ٹی وی چینل کی ویب سائٹ پر لگی تھی کہ  جنوری تا جون 15000 انجینئرز، 1583 ڈاکٹر  اور 1400 آئی ٹی ماہر ملک چھوڑ گئے۔ 6 ماہ میں بیرون ملک جانے والوں کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 95 ہزار 166 ہوگئی۔سال 2022 میں یہ تعداد 8 لاکھ 32 ہزار339، 2021 میں 2 لاکھ 88 ہزار 280 جبکہ 2020 میں 2 لاکھ 25 ہزار 213 تھی یوں رواں سال اوسط  ہر ماہ 65 ہزار 861 پاکستاںیوں نے بہتر روزگار کے لئے مختلف ممالک کا رخ کیا۔ گزشتہ سال 2022 میں ہرماہ اوسط 69 ہزار 362 پاکستانی بیرون ملک روزگار کےلئے گئے۔ پنجاب سےسب سے زیادہ 2 لاکھ 23 ہزار 90  افراد ، کے پی کے سے 1 لاکھ 16 ہزار 94 افراد، سندھ سے 30 ہزار 946 افراد، آزاد کشمیر سے 15 ہزار افراد 136 افراد، بلوچستان سے 4 ہزار افراد، وفاق سے 4 ہزار 513 افراد جبکہ ملک کے دیگر مختلف علاقوں سے 685  افراد  بہتر روزگار کےلئے بیرون ملک گئے۔

ملک چھوڑنے والوں کی سب سے بڑی وجہ بیروزگاری،بے وقعت روپیہ اور سہولیات کی کمی کے ساتھ  ساتھ لاقانونیت ہے،نوجوانوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ جس ملک میں امیروں اور غریبوں کیلئے الگ الگ قوانین ہوں  وہاں رہنا فضول ہے۔وہ اس حوالے سے بڑے بڑے سیاستدانوں،افسروں کے کرپشن کیسز کی مثال دیتے نظرآتے ہیں کہ وہ کھربوں ہڑپ کر بھی چھوٹ جاتے ہیں اور غریب جوتی چوری کے جھوٹے مقدمات میں بھی برس ہا برس قید کاٹ آتے ہیں اور ان کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی کی ’بمباری‘ ہے،پہلی بات تو یہاں بجلی،گیس اور پانی کی قلت ہے،اگر مل جائے تو اتنے مہنگے داموں کہ عام شہری سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کھانے کیلئے روٹی کا اہتمام کریں یا پھر اتنے بھاری بل ادا کریں ۔

عوام پر ایک کے بعد ایک بمباری جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی ۔مہنگائی کے اس گولہ باری نے اس قوم کے پیروں تلے سے زمین اور جسم سے جان نکال دی ہے۔ نہ جانے کتنا نقصان پہنچایا ہے اور آگے کتنا نقصان ہونے والا ہے اس کا شاید وہ لوگ اندازہ کرہی نہیں سکتے جو پچھلے 16ماہ حکومت کرنے کے بعد ’آرام‘ کی غرض سے لندن چلے گئے ہیں۔ بجلی کے بل غریب کی مہینے کی کل کمائی سے بھی زیادہ آ گئے ہیں۔ غریب کیا مڈل کلاس کے بس سے بھی اخراجات باہرہو گئے ہیں۔ 2016 کے بعد،خصوصاً گزشتہ دو برسوں میں  ایک دن ایسا نہیں گزرا جس دن عوام کو کوئی کڑوی گولی نہ نگلنا پڑی ہو۔ ْیہ کڑوی گولیاں کبھی مہنگے پٹرول،کبھی مہنگی بجلی اور تو کبھی مہنگی ادویات کی صورت میں دی گئیں ۔اب پاکستان میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں بچی ہے جسے سستا یا قابل اسطاعت کہا جا سکے۔اشیا خورونوش سے لیکر ادویات،ادویات سے لیکر پٹرول،بجلی،گیس،سبزی فروٹ ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے ۔

بات کی جائے ڈالر کی تو ڈالر کسی کی پکڑ میں نہیں آرہا ہے،حالات یہ ہے کہ افغانستان جیسا ملک جیسے خانہ جنگی سے نکلے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اس کی کرنسی بھی پاکستان سے 29.3 فیصد تک مستحکم ہے،ڈالر کی قیمت میں اضافے سے پاکستان کا واجب الادا غیر ملکی قرضہ 6 ہزار ارب روپے مزید بڑھ گیا ہے۔وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 تک پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کمی ہوئی لیکن ڈالر کی قیمت بڑھ گئی جس کی وجہ سے پاکستان کا واجب الادا غیر ملکی قرضہ 6 ہزار ارب روپے مزید بڑھ گیا۔

ضرور پڑھیں:عمران خان کو ’ارینج میرج‘مہنگی پڑی

بھارت ہمارا روایتی دشمن ہے لیکن وہ ہمارے مقابلے میں بہت آگے جاچکا ہے، اس وقت دُنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق آئندہ پانچ برسوں میں امریکہ اور چین کے بعد دُنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔اس کا سالانہ جی ڈی پی سات فیصد کے قریب ہے۔اس نے 32 برس پہلے آئی ایم ایف سے قرض لینا چھوڑا تھا،اس کے بعد آج تک اس ادارے کی طرف دیکھا تک نہیں ۔

وجہ کیا ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں کبھی مارشل لا نہیں لگا ،وہاں ایک ایک سیاسی حکومت نے معاشی منصوبہ بنایا جس کے روح رواں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ تھے۔ بی جے پی کی سرکار میں کانگریس کے بنائے منصوبے چلتے رہے اور کانگرس کی سرکار میں بی جے پی کی معاشی پالیسی رواں رکھی گئی، سیاست بدلتی رہی، انداز بدلتے رہے مگر ترقی کا راستہ نہ بدلا۔

یہ بھی پڑھیں:اگلے وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے؟

میں نے ایک تاجر سے سوال کیا کہ پاکستان کا ہمسائیہ چاند پر قدم رکھ چکا ہے تو پاکستان کیوں نہیں جاتا ؟ اس پر وہ ہنس کر بولا ،چاند پر نہ پانی ہے،نہ بجلی اور نہ ہی گیس ۔ہر طرف بیابانی۔وہاں کوئی کیسے زندہ رہے گا،ادھر دیکھیں پاکستان میں یہی صورتحال ہے،ہمارا وطن ہی چاند ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے چاند پر جانے کی ۔یہی سچ ہے اور سچ کو ہم قبول کرلیں تو ہمارے لئے ہی بہتر ہوگا۔

نوٹ:یہ بلاگ ذاتی خیالات پر مبنی ہے،بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ایڈیٹر

مزیدخبریں