(24نیوز)پاکستانی فلموں اور ڈراموں کے معروف اداکار ہمایوں سعید نے کہا ہےکہ ہمارے پاس ڈراموں کے اچھے سکرپٹ نہیں ہیں، آج کے رائٹرز ایک سال میں چار چار پانچ پانچ ڈرامے لکھ رہے ہیں جس کے باعث زیادہ تر ڈراموں میں کرداروں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق عالمی اردو کانفرنس میں بات کرتے ہوئے اداکار ہمایوں سعید نے کہا کہ ہمارے پاس ڈراموں کے اچھے سکرپٹ نہیں ہیں سکرپٹ ہی سب سے اہم ہوتا ہے میں اور ندیم بیگ دونوں اچھے اسکرپٹ کا انتظار کررہے ہیں اگر میں اور ندیم ابھی کام نہیں کررہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔میری حال ہی میں خلیل الرحمان قمر، فائزہ افتخار اور عمیرہ احمد سے ملاقات ہوئی، آج کل کے زیادہ تر ڈراموں میں کرداروں کا کوئی مقصد نہیں ہوتا پہلے ڈراموں میں کردار کا ایک مقصد ہوتا تھا جو اب نہیں ہوتا اب زیادہ تر کہانی اور ایونٹس پر زور ہوتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ آج کل کے سکرپٹ میں جس چیز کی کمی ہے وہ حسینہ معین جیسے سینئر رائڑز کی کمی ہے یہی لوگ کرداروں کے ڈائیلاگ میں گہرائی ڈال سکتے ہیں آج کل 90 فیصد رائٹرز کے ڈائیلاگ میں گہرائی ہی نہیں ہوتی جبکہ ہمارے سینئرز کو اسی لئے وقت لگتا تھا کہ وہ اپنی تحریر پر بہت محنت کرتے تھے ۔
ہمایوں سعید نے کہا کہ خلیل الرحمان قمر کی تحریر کردہ ان کی آنے والی فلم ؔہمایوں سعید’’لندن نہیں جاؤں گا‘‘ کی 70 فیصد شوٹنگ مکمل ہوچکی ہے بس لندن میں ہونے والی عکس بندی ہی باقی رہتی ہے تاہم کرونا کے باعث فلمیں رکی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان دنوں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی وجہ سے آپ کے فلم بینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم کچھ فلمیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف سنیما میں دیکھنے میں مزہ آتا ہے۔بھارت کو یہ آسانی ہے کہ وہ اپنی فلمیں سینما کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل پلٹ فارمز پر بھی ریلیز کرسکتے ہیں اور انہیں وہاں سے اچھی آمدنی بھی ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمیں نیٹ فلکس یا ایمازون پر فلم ریلیز کرنے کیلئے بھارت سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔
فلم کے شعبہ کو انڈسٹری کا درجہ دینے کے سوال پر ہمایوں سعیدنےکہا کہ خواہ پچھلی حکومتیں ہوں یا موجودہ حکومت سب نے کوشش کی ہوگی لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ، ان کا کہنا تھاکہ میں نیچرل ایکٹنگ پر زور دوں جو کہ وقت کا تقاضہ بھی ہوتا تھا اگر آپ شاہ رخ خان کی 15 سال پرانی ایکٹنگ دیکھیں گے تو آپ کو ہنسی آئے گی لیکن آپ 40 سال پرانی ہالی ووڈ کے کیون کوسلر کی فلم دیکھیں گے تو آپ نہیں ہنسیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مشہور ترک ڈرامہ ارطغرل کے پروڈیوسر نے میرے ایک دوست کاشف انصاری سے رابطہ کیا کہ وہ ایک ایسی چیز بنارہے ہیں جس کی کہانی پاکستان سے شروع ہوتی ہے تو کاشف انصاری نے اداکار عدنان صدیقی اور مجھ سے رابطہ کیا۔