جمہوریت کا بحران اور استبدادی نظام !

اسلم اعوان

Dec 08, 2024 | 11:55:AM

 آج ہماری مملکت جن پیچیدہ سماجی تضادات ، انتظامی مسائل ، سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات میں مبتلا نظر آتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ وہ متلون نظام ریاست بنا جو پون صدی سے پنڈولم کی طرح جمہوریت ، آمریت اور تھیوکریسی کے درمیان جھولتا رہا ، مستزاد یہ کہ عالمی طاقتوں کی کشمکش کے دوران یہاں مذہبی فرقہ بندی اور نسلی و لسانی عصبیتوں کی دھار تیز کرکے صدیوں سے وقت کی گود میں پروان چڑھتی روایات و اقدار پہ قائم سماجی نظم و ضبط کو پراگندہ کرکے ہمارے قومی وجود کو دائمی اضطراب کے سپرد کر دیا گیا اور اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس پُرفتن عہد میں سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز کا سیلاب روایتی جمہوری عمل کے ذریعے ہمیں ریاست کو ری آرگنائز کرنے کی مہلت بھی نہیں دیتا چنانچہ ہماری قومی سلامتی اور جغرافیائی وحدت شدت کے ساتھ چین کی مانند ایسے جدید استبدادی نظام کی متقاضی ہے جو اس غیر معمولی افراط و تفریط کو ہموار کر کے دنیا کی چھٹی بڑی آبادی والے ایٹمی قوت کے حامل ملک کو متوازن بنا سکے ، اس لئے جسقدر جلد ممکن ہو ہمیں پارلیمانی جمہوریت کے فریب سے نکل کر ایک فلاحی اتھارٹیرین رجیم کی طرف قدم بڑھا لینا چاہئے ۔ سیاسی سائنسدان حکمرانی کے اس طریقے کو بیان کرنے کے لئے آمریت کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو شخصی آزادیوں پر سماجی نظم و ضبط اور ریاستی کنٹرول کو فوقیت دیتی ہے ، جس کی ترجیح اول مستحکم حکومت کے ذریعے قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے کے علاوہ منظم آزادی کا احیاء ہے۔

آمریت مخالف عام طور پر قانون کے سامنے مکمل مساوات اور مضبوط شہری آزادیوں کی جگالی تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں نام نہاد جمہوری ریاستیں آزادی اظہار کی حدود و قیود اور تنقید کے معیار کا تعین کرنے میں فریب کاری سے کام لیتی ہیں ۔ نوم چومسکی کہتے ہیں "جمہوریت امریکہ میں بیان بازی اور حکمرانی کے ایسے نظام کو کہتے ہیں،جس میں کاروباری برادری میں مقیم اشرافیہ کے عناصر نجی معاشرے پہ اپنے غلبہ کی وجہ سے ریاست کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ آبادی خاموشی سے مشاہدہ کرتی ہے ، تو سمجھ میں آیا ؟ کہ جمہوریت اشرافیہ کے فیصلے اور عوامی توثیق کا نظام ہے،جیسا کہ خود امریکہ میں ہے،جہاں قومی پالیسی کی تشکیل میں عوامی شمولیت کو سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے ، یہ جمہوریت کی طرف قدم نہیں بلکہ جمہوریت کا بحران ہے، جس پہ قابو پانا ضروری ہے".

نوم چومسکی مزید کہتے ہیں کہ دوسری جگہ میں نے انہیں پانچویں آزادی لکھا ، جن کا تذکرہ صدر روزویلٹ نے اپنی وضع کردہ چار آزادیوں میں نہیں کیا ،جنہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران مغربی اتحادیوں کے جنگی مقاصد کے طور پہ پیش کیا گیا تھا یعنی، تقریر کی آزادی ، عبادت کی آزادی، خواہش سے آزادی اور خوف سے آزادی ، اگر میں وضاحت سے کہوں تو امریکی خارجہ پالیسی کی بنیادی فکر لوٹ مار اور استحصال کی آزادی کی ضمانت حاصل کرنا ہے“۔ جارج کینن ،جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ابتدائی منصوبہ سازوں کے سرخیل تھے ، کہتے ہیں کہ ہمیں مبہم اور غیرحقیقی مقاصد جیسے کہ انسانی حقوق ، بہتر معیارزندگی کا حصول اور جمہوریت سازی جیسے مثالی نعروں کا تعاقب کرنے کی بجائے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر تشدد کا استعمال کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے“ یعنی مغرب میں عملاً جمہوریت نہیں بلکہ "پلوٹو کریسی"رائج رہی اور وہاں بنیادی آزادیوں کا مقصد عام آبادی کے ساتھ سیاسی طور پہ سرگرم اشرافیہ کے مابین بھی جہالت اور بے حسی کی مطلوبہ سطح کو برقرار رکھنا تھا لیکن وقت کی صرف ایک کروٹ نے آج دنیا میں جمہوری آزادیوں کے علمبردار امریکہ کو واضح طور پہ استبدادی طرز حکومت کی طرف دھکیل دیا ، نومنتخب صدر ٹرمپ کے سیاسی عہدوں کو کچھ لوگ دائیں بازو کے پاپولسٹ کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن سیاسی پنڈتوں نے یکساں طور پر ٹرمپ کے پاپولزم ، اینٹی فری ٹریڈ اور تارکین وطن مخالف موقف کو " ٹرمپزم "کا نام دیا ، اس سے قبل ایسی اصلاحات کیمونسٹ نظریات کی حامل استبدادی حکومتوں کے ساتھ منسوب ہوا کرتی تھیں جیسے چین میں ماوازم ، لینن ازم ، مارکسزم ، ٹیٹوازم وغیرہ وغیرہ ۔

جمہوریت کا دفاع کرنے والے عالمی ادارے نے کہا ہے کہ " آزاد معاشرے  آمرانہ حکومتوں کے ساتھ نظریات کی جنگ ہار رہے ہیں ، اس کی وجہ یہ نہیں کہ جمہوری نظریات کمزور ہیں بلکہ اس لیے کہ میدان جنگ ان کے خلاف ہے"۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں روایتی جمہوری تصورات انسانیت کی بقاء کے لئے ناکافی ثابت ہوئے ہیں ، بظاہر یہی لگتا ہے کہ جمہوریت متروک ہونے والی ہے پچھلے دو سو سالوں میں جمہوری عمل کسی نہ کسی صورت میں جدید معاشروں کے اجتماعی شعور کو منظم کرکے ادارہ جاتی توازن پیدا کرتا رہا مگر سوشل میڈیا کی طلسماتی لہروں اور فیک نیوز کی یلغار نے نسل انسانی کو کنفیوژ کرکے جمہوری تمدن کو بیکار بنا ڈالا ، اب اجتماعی زندگی کے تقاضے شخصی آزادیوں پہ نظم و ضبط کو ترجیح دینے پہ مجبور ہیں ، اس لئے امریکہ اور یوروپ سمیت تمام عالمی طاقتیں یہ بات جان چکی ہیں کہ مستقبل میں صرف استبدادی حکومتیں ہی زندہ رہ سکیں گی ۔ اِسی تناظر میں مغرب کے جمہوری معاشروں پر چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا اندازہ جمہوری معاشروں کو درپیش اندرونی چیلنجوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ۔ یک جماعتی آمریت کی کوکھ سے نمودار ہونے والا چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرا اور اس نے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو گہرا کر لیا . بہت سے مغربی معاشرے جن کے ساتھ بیجنگ اور اس کے ہمنوا مشغول ہیں ، اب جمہوریت کے پیچیدہ تضادات سے جان چھڑا کر استبدادی طرز حکمرانی سے استفادہ کی طرف بڑھ رہے ہیں, صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر حصوں میں کئی ریاستیں چینی کمیونسٹ پارٹی کے اسٹریٹجک نظریات کو اپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

 ابھرتی ہوئے جارجیا کی چین کے ساتھ "اسٹریٹجک پارٹنرشپ " اسی تغیر کی نمایاں مثال ہے ۔ جارجیا، جو 40 لاکھ سے کم آبادی کا ملک ہے ، چین کے ساتھ سیاسی، اقتصادی، عوام سے عوام ، میڈیا اور ثقافت سے متعلق معاہدوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہو گا کہ نوع انسانی پہلے ہی ڈرامائی طور پر جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالہ سے زیادہ پیچیدہ صورتحال میں داخل ہو چکی ہے ، یہاں تک کہ دس یا پندرہ سال پہلے کے نقطہ نظر سے بھی حالانکہ تاریخی لحاظ سے یہ وقت پلک جھپکنے کے برابر ہے , یہ تغیرات اسی رفتار کے ساتھ جمہوریت کے لیے غیر دوستانہ تبدیلیاں برپا کرتے جا رہے ہیں , اِن عالمی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ حیران کن معلومات کے شعبے میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں ، ذرائع ابلاغ میں عدم توازن سب سے زیادہ یک طرفہ ہے ، جس نے جمہوریت پہ عوامی اعتماد کو برباد کر ڈالا اور آمرانہ طاقتوں کو معلومات کے اہم فوائد فراہم کئے ۔ بیجنگ اور ماسکو نے، خاص طور پر بڑے پیمانے پر مغربی معاشروں کو متاثرکرنے والی میڈیا صلاحیتیں تیار کر لی ہیں جو سیاسی قیادت کی ترجیحات کے مطابق مواد کو درست کرنے کے قابل ہو چکی ہیں یعنی استبدادی ممالک کی پیش کردہ کہانی کی لکیریں تیزی سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک رہ کر دنیا بھر کی ترتیبات میں پیغام رسانی اور بیانیے کو مرتکز کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی رفتار نے عالمی سیاسی دائروں میں اسقدر گہرا اثر ڈالا کہ اب اکثریت انسانیت کی بقاء کی خاطر جمہوری فریب کاری کے مقابلہ میں معقول استبدادیت کو زیادہ موثر تصور کرتی ہے ۔ اس لئے ڈیجیٹل انقلاب نے جس طرح تیزی کے ساتھ جمہوریت کا پردہ چاک کیا اسی رفتار سے وہ استبدادی طاقتوں کے لیے عالمی آپریٹنگ ماحول فراہم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوا اور اسی نے انہیں نوع انسانی پر بڑے پیمانے پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے قابل بنایا ۔

 امریکی تھنک ٹینکس کی رپوٹس اور نوم چومسکی کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ کلیدی معاملات میں جمہوری خود مختاری کے فرسودہ تصورات نے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو اپنی اقدار کےلئے موت سمجھ لیا تھا کیونکہ نئے تکنیکی آلات استبدادی حکومتوں کے لیے اپنے عوام کو مربوط رکھنا آسان بناتے ہیں ۔ ٹک ٹاک چینی ٹیک فرم ByteDance کی ملکیت ہے ، جس نے نہایت سرعت کے ساتھ فلکیاتی ترقی کا لطف اٹھایا ۔ باضابطہ طور پر ٹک ٹاک کے اب ایک ارب سے زیادہ فعال عالمی صارفین ہیں ۔ اکتوبر 2023 تک ریاستہائے متحدہ میں 143 ملین سے زیادہ فعال TikTok صارفین تھے۔ علی ہذالقیاس ، جدید ٹیکنالوجی کی آزاد تنقید نے ہر شعبہ میں بدنظمی اور انحطاط کو مہمیز دیکر ہمیں جمہوریت کی کبریائی حیثیت پہ شک کرنے پہ مجبور کر دیا بلاشبہ ایک مضبوط استبدادی حکومت ہی ہمیں امن اور نظم و ضبط عطا کر سکتی ہے، میرے خیال میں بعض وظائف جیسا کہ مالیات، نقل و حمل اور اظہار رائے کے وسائل ، اتنے قوی ہیں کہ آئینی پابندیوں کے بغیر وہ معاشرے کو برباد کر سکتے ہیں ، اگرچہ ہمارے عہد میں ہر حکومت کو نااہل ، بداخلاق اور جانبدار سمجھا جاتا ہے لیکن سچ پوچھئے تو بھلائی اسی میں ہے کہ یہ وسائل حکومت کے کنٹرول میں ہونے چاہئے۔

مزیدخبریں