مدارس بل کا جھگڑا؟ "وہ بات" جس کا سارے فسانے میں کوئی ذکر نہیں

احمد منصور 

Dec 08, 2024 | 20:57:PM

 شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد نہ حکیم

پہلے شعر میں چوب یعنی لاٹھی کا ذکر ہے جو "مطلق قوت" کا استعارہ ہے کہ جب بات الجھ جائے اور بحث و تمحیص کی مدد سے بات کسی کنارے نہ لگے تو پھر آخری فیصلہ طاقت ہی کرتی ہے جسے ہمارے ہاں دیسی استعارے میں کہا جاتا ہے کہ "ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا" 

دوسرے شعر میں عقل کی عیاری کا ذکر ہے اور اس کا پہلا استعارہ ملا کو قرار دیا گیا ہے، دوسرا زاہد کو اور تیسرا حکیم( دانشور) کو ۔۔۔۔ یہ تینوں کوالٹیاں پاکستانی سیاست کے افلاطون مولانا فضل الرحمٰن میں بدرجہ اتم موجود ہیں، آج کل مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق قانون سازی پر انہوں نے جو طوفان اٹھایا ہوا ہے اور جس طرح نت نئی عقلی دلیلوں کے ذریعے وہ پینترے بدل بدل کر اس سیدھے سادے موقف سے ٹکرا رہے ہیں جو ریاست و حکومت کا ہے،مولانا کے یہ پینترے دیکھ کر اقبال کا یہ شعر ایک بار پھر یاد آ جاتا ہے کہ
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے،نہ زاہد نہ حکیم

جب کسی کا موقف کمزور ہو تو پھر تو پھر وہ اپنے زہد و تقویٰ اور دانشوری کی دھاک بٹھا کر اپنے طبقے کے تقدس، عزت اور غیرت کا ایشو بنا کر جذباتیت کو ہوا دینے لگتا ہے مدارس کے ایشو پر بھی آج کل ایک بار پھر سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ 

تنازع یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور اتحاد تنظیمات مدارس 29 اگست 2019ء کو طے پانے والے اس معاہدے سے منحرف ہو گئے ہیں جو انہوں نے پی ٹی آئی دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے زمانے میں حکومت و ریاست پاکستان کے ساتھ کیا تھا اور جسے انہوں نے بعد میں اپنی ہی پی ڈی ایم حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف کے زمانے میں مزید آگے بڑھایا۔ 

 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے طوفان میں چپکے سے اپنے مطلب کا  مدارس رجسٹریشن بل 2024ء منظور کروا کے مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھی علماء کرام بضد ہیں کہ وہ اپنے مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ 1886ء کی شق 21 کے تحت ہی کروائیں گے جسے عرف عام میں مدرسہ رجسٹریشن ایکٹ 1886ء یا مدرسہ رجسٹریشن ایکٹ 2004ء بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2004ء میں حکومت پاکستان اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے مل کر بنایا تھا، یوں تو مولانا فضل الرحمٰن جرنیلوں اور فوجی ادوار کے سخت ناقد ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ وہ 2 جمہوری حکومتوں کے دور میں طے پانے والے معاہدے اور معاملات کے پابند نہیں بلکہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے دور میں طے پانے والے معاہدے پر ہی چلیں گے۔

29 اگست 2019ء کو اتحاد تنظیمات مدارس نے اس قانون سے اتفاق کیا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل وزارت تجارت کی بجائے وزارت تعلیم کے ماتحت لایا جائے گا کیونکہ سوسائٹی ایکٹ 1886ء کی شق 21 کے تحت رجسٹریشن منسٹری آف کامرس کے تحت آتی ہے۔ سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ مدارس کا شعبہ تجارت ہے یا تعلیم؟ اور مولانا حضرات اپنے اداروں کو منسٹری آف کامرس میں ہی رجسٹرڈ کروانے پر کیوں بضد ہیں؟ 

اصل بات یہ ہے کہ  منسٹری آف کامرس کو تعلیم کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں،  نصاب تعلیم، فرقہ واریت،  بین المذاھب ہم آہنگی سمیت دینی و تعلیمی امور سے وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کا کوئی واسطہ ہے نہ کامرس منسٹری کے رولز اینڈ ریگولیشنز ان نازک پہلوؤں کی مانیٹرنگ کے حوالے سے تشکیل دیئے گئے ہیں، اس لیئے وزارت تجارت کے تحت رجسٹریشن کروانے میں موج میلہ یہ ہے کہ مدارس سے نہ کوئی یہ پوچھتا ہے کہ وہ کیا پڑھا رہے ہیں اور نہ ہی ان کی آمدن و خرچ کا حساب اور اکاؤنٹس کی تفصیل مانگی جاتی ہے اور نہ ہی زیر تعلیم طلبہ و طالبات اور اساتذہ کے حقوق اور تعلیمی معیار کے حوالے سے وزارت تجارت کا نگرانی کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی منسٹری آف کامرس یہ مانیٹر کر سکتی ہے کہ یہاں پڑھنے والے بچے کن ممالک سے آئے ہیں؟ 

ایک اور اہم پوائنٹ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم دور میں وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والی مدارس کانفرنس میں اتحاد تنظیمات مدارس والے یہ مان چکے ہیں کہ جو مدارس ڈی جی آر ای کے تحت رجسٹرڈ ہونا چاہتے ہیں وہ اُس کے تحت رجسٹرڈ ہو جائیں اور جو مدارس  مدرسہ ایکٹ 1886ء  کے تحت رجسٹرڈ ہونا چاہتے ہیں وہ اُس کے تحت رجسٹرڈ ہو جائیں، مگر اس فیصلے کا نوٹی فکیشن نہیں ہو سکا تھا۔ مولانا نے پی ڈی ایم کے سابق دورِ حکومت کے آخری دن بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔

اب انہوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ مدارس رجسٹریشن بل 2024ء کو 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ پاس کروا لیا، جس میں تمام مدارس کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک کر پرانے، غیر فطری اور انتہائی متنازع رجسٹریشن پراسیس میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے، چپکے چپکے چوری چوری پاس کروائے گئے اس بل پر نئے قانون کے تحت قائم دس نئے وفاق ہائے مدارسِ سے کوئی مشورہ کیا گیا اور  نہ ہی نئے سسٹم کے تحت رجسٹریشن کروانے والے 1800 سے  زائد مدارس کی رائے لی گئی۔ صدر پاکستان اگر اس بل پر دستخط کر دیتے تو یہ ان 1800 سے زائد مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے مستقبل کے ساتھ سخت زیادتی ہوتی، صدر نے یہ بل اعتراض لگا کر پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے، اس لیئے مولانا نے اب طوفان اٹھا رکھا ہے۔ 

مولانا کی بلیک میلنگ میں آ کر اگر حکومت اس بل کو منظور کر لیتی ہے تو یہ بہت بڑا نقصان ہو گا اُن ہزاروں لاکھوں بچوں کا جو نئے سسٹم کے تحت نیشنل اسٹریم میں شامل ہو ریے ہیں۔

ایک اور اہم پہلو پاکستان کی بین الاقوامی ذمےداریوں سے متعلق بھی ہے،  ایف اے ٹی ایف کے تحت مدارس اکاونٹس کی تفصیلات شیئر کرنے کے پابند ہیں، مولانا حضرات کی ساری بلیک میلنگ کی ایک وجہ یہ مالی معاملات بھی ہیں کیونکہ وہ اپنے اکاؤنٹس شیئر کرنے سے بچنے کیلئے اس معاملے کو دینی غیرت و حمیت کا ایشو بنائے ہوئے ہیں، سچ ہے کہ عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے۔ 

قومی سلامتی کے حوالے سے بھی اور مدارس کے بچوں کے مستقبل کے لیے بھی یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے چاہے و سرکاری اسکول کالج اور یونیورسٹیاں ہوں یا دینی  مدارس سب کو ایک ہی شعبے یعنی وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیئے تاکہ مستقبل میں بھی ان تمام کو یکساں حقوق اور یکساں مراعات دینے میں آسانی ہو۔ 

مدارس رجسٹریشن ایکٹ 1886ء اُس وقت نافذ العمل ہوتا تھا جب مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کوئی اور قانون نہیں تھا۔ اے پی ایس کے واقعہ کے بعد نیشنل سیکورٹی پالیسی بنی اور اُس کے تحت نیشنل ایکشن پلان بنا۔ جس کا ایک اہم پہلو مدارس کو ریفارم کرنا اور اِن کو قومی دھارے میں لانا تھا۔ اس معاملے پر علما سے مختلف اوقات میں بات ہوتی رہی کہ مدارس کو کس طرح قومی دھارے میں لایا جائے۔ اتحاد تنظیمات المدارس اور  تعلیم کے وفاقی وزیر شفقت محمود میں بات چیت ہوتی رہی  جس میں یہ طے پایا کہ مدارس کو رجسٹریشن کے لیے محکمہ تعلیم کے اندر لایا جائے۔ معاہدے میں یہ طے پایا کہ مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی بھی تعلیم دی جائے گی، کوئی مدرسہ کوئی ایسا مواد نہیں پڑھائے گا جو شدت پسندی کو ہوا دیتا ہو، تمام مدارس کے بینک اکاونٹس کو مانیٹر کیا جائے گا اور ہر مدرسہ اپنے اکاونٹس کی تفصیل دے گا  اور ہر مدرسہ اپنے آپ کو ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی امور کے تحت رجسٹرڈ بھی کروائے گاجو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کام کر گا۔

اس معاہدے پر دستخطوں کے بعد مدارس کو رجسٹریشن میں سہولت فراہم کرنے کے لیے مذید دس وفاق بنائے گئے۔ اس معاہدے کا مقصد قومی سطح پر مدارس کا ڈیٹا جمع کرنا، عصری علوم کی تعلیم کی سہولت مدارس کے طلبہ تک پھیلانا اور بیرون ملک سے پاکستان کے مدارس میں آنے والے طلبا کا ریکارڈ رکھنا بھی تھا۔ یہ بھی طے پایا کہ جو مدارس چاہیں وہ نئے نظام کے تحت رجسٹریشن کروائیں اور جو چاہیں وہ پرانے نظام کے تحت رجسٹرڈ رہیں، پرانے پانچ وفاق اپنے پہلے سے جاری سسٹم سے منسلک رہے، 10 نئے وفاق نئے نظام میں آ گئے  لیکن مولانا اور ان کے حامی 5 وفاق اب اس معاہدے سے منحرف ہو گئے ہیں اور نئے 10 وفاق کے سسٹم کو بھی اپنے پرانے نظام میں لانا چاہتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت "دوڑ پیچھے کی طرف" والی اس مہم جوئی سے کیسے نمٹتی ہے،دلچسپ بات مولانا حضرات کی اس بلیک میلنگ کی یہ ہے کہ "وہ بات" جس کا اس سارے فسانے میں ذکر نہیں کیا جا رہا وہ دینی مدارس کے اکاؤنٹس کو خفیہ رکھنے کی سرتوڑ کوشش ہے، مولانا اور ان کے حواری ملک کے باقی تمام شعبوں کے مالی معاملات شفاف رکھنے اور کرپشن کلچر کے خاتمے کے علمبردار ہیں لیکن اپنے مالی معاملات اندھیرے اور پردے میں رکھنا چاہتے ہیں، معاملہ یہ مالی مفادات اور کالے دھن کا ہے لیکن اسے مدارس کی آزادی اور دینی غیرت و حمیت کا ایشو بنا کر اپنے کمزور موقف کو "کور" دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مولانا حضرات کی یہ چابکدستی اور شاطرانہ چالیں دیکھ کر ایک بار پھر اقبال کا شعر یاد آ رہا ہے کہ 

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد نہ حکیم

یہ بھی پڑھیں:  وزیراعظم شہبازشریف اور نواز شریف کے درمیان اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی 

مزیدخبریں