پاکستان کے 39 لاکھ سے زائد اقلیتی ووٹرز الیکشن میں جداگانہ طریقہ انتخاب کےخواہاں

رپورٹ : وسیم شہزاد (ملتان)

Feb 08, 2024 | 11:14:AM

پاکستان میں آج عام انتخابات ہو رہے ہیں، ایسے میں اکثریت کی طرح اقلیت بھی نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے کے حوالے سے پرعزم دکھائی دے رہی ہے ، بلکہ وہ ایوانوں میں بھی اپنے نمائندگان کو زیادہ تعداد میں دیکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ ان سے جڑے مسائل کو بھی اسمبلی کے فلور پر نہ صرف بہتر طریقے سے پیش کیا جائے بلکہ ان کے حل کے لئے قرار واقعی اقدامات بھی کئے جائیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے، جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔
’وقت آگیا ہے کہ آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرائی جائیں اور اقلیتی عوام کو براہ راست اپنے ووٹ سے اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا جائے۔یہ کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے اقلیتوں کے نمائندہ سابق ممبر صوبائی اسمبلی مہندر پال سنگھ کا ، جنکا تعلق تو ننکانہ صاحب سے ہے مگر زیادہ تر پڑاو ملتان میں رہتا ہے ،ان کے مطابق آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرنے اور آزاد جموں کشمیر کی طرح اقلیتی برادری کو ووٹ کے دہرے حقوق دینے کے حوالے سے وہ گزشتہ پانچ سال سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مہندر پال سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کل آبادی کا 6 فیصد سے زائد اقلیتوں پر مشتمل ہے، اس دوران اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ اس کی نسبت عام نشستوں کو نمایاں اضافے کے ساتھ بڑھایا گیا ہے جو مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 
یہاں سوال پیدا یے ہوتا ہے کہ نمائندگی آخر ضروری کیوں  ؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما اور مخصوص نشست پر بننے والے سابق ایم این اے نوید عامر جیوا کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام کے لئے جمہوریت نہایت ضروری ہے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے صاف شفاف انتخابات لازم و ملزوم ہیں، الیکشن جمہوریت کے فروغ کے لئے ایک ایسی ہی سرگرمی ہے جس میں ملک میں بسنے والے تمام افراد کی بلا تفریق نمائندگی ضروری ہے۔


نوید عامر جیوا کہتے ہیں کہعام انتخابات میں مرد اور خواتین کو الیکشن لڑنے کاموقع دیا جاتا ہے اور کامیابی کے بعد وہ عوام کے براہ راست منتخب نمائندے بن کر نہ صرف ایوان میں نمائندگی کرتے ہیں بلکہ حلقے کے لوگوں کے مسائل پر آواز بھی اٹھاتے ہیں۔مگر بدقسمتی سے اس تمام تر سیاسی سرگرمی میں اقلیتوں کو جنرل سیٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر یوں کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ہے، یعنی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا سیاسی امیدوار براہ راست جنرل نشست کے لئے الیکشن نہیں لڑسکتا۔ اگر اس اقلیتی شہری کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے ہے تو اسے مخصوص نشست پر پارٹی ٹکٹ دیا جاتا ہے۔دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پہلے پانچ اگست 2022 کو حلقہ بندیاں کی تھیں، لیکن ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے سبب الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں کرنا پڑیں۔مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں ۔ 


شہر ملتان میں اقلیتی برادری کے رہنما بیرسٹر جیمس نور کہتے کہتے ہیں آئین کے آرٹیکل 51 اور 106کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لئے 10 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں ، اسی طرح خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں 4 ، پنجاب اسمبلی 8 ، سندھ اسمبلی 9 اور بلوچستان اسمبلی میں 3 سیٹوں پر اقلیتوں کی نمائندگی ہورہی ہے۔ جیمس نور کہتے ہیں 1997 سے قبل تک اقلیتوں کے امیدوار براہ راست الیکشن کے مرحلے میں حصہ لیتے تھے، پھر انتخابات میں ووٹرز مسلم اور غیر مسلم ووٹرز تقسیم ہوگئے، جس سے مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتی تھیں۔تاہم جنرل مشرف کے دور، سال 2000 میں اقلیتی برادری کے لئے مشترکہ انتخابی نظام متعارف کروایا گیا جس کو ون بیلٹ سسٹم کہا جاتا ہے، اس سے مراد اقلیتی برادری الگ سے اپنے کسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ نہیں کرے گی بلکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے دیئے گئے سفید اور سبز رنگ کے بیلٹ پیپر میں سے سفید قومی اسمبلی کے امیدوار جبکہ سبز رنگ کے بیلٹ پیپر کو اپنے حلقے ایم پی اے کے انتخاب کے لئے کاسٹ کریں گے۔

جیمس نور نے بتایا کہ مذہبی اقلیتوں نے اس انتخابی نظام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ مشترکہ رائے دہندگان کا نظام مسلم سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو اپنے پسندیدہ اقلیتی رہنماوں کے انتخاب کے زریعے اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر لے کر آئیں۔جیمس نور کہتے ہیں کہ اقلیتی برادری کے مطابق اس میں اکثر مالی پیشکش کی بدولت نمائندگی کا حق حاصل کرتے ہیں جو ایوان میں آکر اقلیت کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے اقلیت کے نام پر صرف سیاست کرتے ہیں جس کا نقصان براہ راست عام اقلیت کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اقلیتی برادری کیسا نظام چاہتی ہے ؟
ملتان سے تعلق رکھنے والے مسیحی برادری کے رہنما سابق ڈسٹرکٹ ممبر آشر سلیمان کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو نمائندگی تو حاصل ہے لیکن وہ ناکافی ہے، کیونکہ پورے صوبے کے تمام اضلاع کی چھوٹی چھوٹی کونسلز میں بھی اقلیتی ووٹر موجود ہے جو اپنی نشستوں میں اضافے کے خواہاں ہیں، تاکہ ان کو درپیش مسائل کا حل بخوبی اور فوری ہو۔ آشر سلیمان کا کہنا ہے کہ بعض اقلیتی رہنما مشترکہ انتخابی نظام کے مخالف ہیں مگر کھل کر اظہار نہیں کرتے ، وہ کہتے ہیں ماضی میں جداگانہ نظام انتخاب سے اقلیتی عوام اپنے امیدوار براہ راست منتخب کرتے تھے اور وہ ان کے سامنےجوابدہ بھی ہوتے تھے۔مسیحی رہنما آشر سلیمان دعوی کرتے ہیں کہ اقلیتی برادری کے لئے یہ نظام الیکشن نہیں سلیکشن ہے، جو پارٹی اپنی مرضی سے نامزد کرے وہی پانچ سال کے لئے اقلیت کا نمائندہ ہوتا ہے اسی لئے بیشتر اقلیتی شہری موجود نظام انتخاب میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔


اقلیتی برادری کے رہنما و سابقہ کونسلر یوسی پانچ یعقوب گل آبادی میں اضافے کے باوجود مذہبی اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ نہ ہونے پر مایوسی اور تشویش کا اظہار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس عمل کے باعث یقینی طور پر ان کے بنیادی اور آئینی حقوق کا استحصال ہو رہا ہے، یعقوب گل کا سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے اپنے منشور کو عوام کے سامنے رکھیں تاکہ سیاسی جماعتوں کی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے سنجیدگی کا پتہ چل سکے، وہ بھی اقلیتوں کے حوالے سے جداگانہ انتخاب کو ہی اقلیتی برادری کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔
سابق اقلیتی اراکین اسمبلی کیسا انتخابی نظام چاہتے ہیں؟
گزشتہ دور حکومت میں مخصوص نشست پر ممبر صوبائی اسمبلی رہنے والے ہندو رہنما کانجی رام کہتے ہیں کہ 1981 کی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی 27 لاکھ 90 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جس میں مسیحی آبادی 13 لاکھ جبکہ ہندوؤں کی آبادی 12 لاکھ 80 ہزار تھی، جو کُل آبادی کا 1.55 فیصد بنتی تھی۔ احمدی ایک لاکھ، اور سکھ، بدھ مت اور پارسی وغیرہ کی کل آبادی 01 لاکھ 10 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اسی مردم شماری کے تحت پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی 8 کروڑ 14 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے ، وہ کہتے ہیں اب اگر 2017 کی مردم شماری کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مطابق مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی ہے، جن میں مسیحی 20 لاکھ 64 ہزار ،ہندو 30 لاکھ 60 ہزار، احمدی 1 لاکھ 9 ہزار شیڈول کاسٹ 8 لاکھ 5 ہزار جبکہ دیگر مذاہب 4 لاکھ ہیں۔ اسی طرح موجودہ آبادی کا تناسب بھی بہت حد تک بڑھ چکا ہے ، 
کانجی رام اس بڑھتی آبادی پر بے بسی کے عالم میں شکوہ کرتے دکھائی دیے کہ آبادی میں اضافے کے باوجود انتخابات میں سیٹوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی برادری اپنے بنیادی اور آئینی حقوق سے بڑی حد تک محروم رہتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بطور اقلیتی سیاستدان اور بطور پولیٹکس طالبعلم وہ ایک ایسے انتخابی نظام کے خواہاں ہیں جو اپنی لیڈر شپ کو براہ راست منتخب کرکے ایوان میں بھیج سکیں تاکہ ان کے مسائل بہتر طور پر حل ہوں۔وہ کہتے ہیں سابقہ دور حکومت میں اقلیتوں رہنماوں نے انتخابی نظام میں بہتری کے لئے صوبائی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی تھی کہ اقلیتوں کو اپنے نمائندگان خود چننے کا حق دیا جائے، تاکہ ان کے مسائل اسمبلی کے فلور پر حل ہوں اور 1973 کے بعد سے اقلیتی نشستوں میں اضافہ نہ ہونے کو بھی اس قراداد کا حصہ بنایا گیا تھا جسے وفاق میں بھیجا گیا تھا۔ مگر بے سود۔

 
مخصوص نشست میں حال ہی میں ممبر صوبائی اسمبلی رہنے والے یدھسڑ چوہان کہتے ہیں کہ بطور اقلیتی سیاستدان اکثریتی سیاست دانوں کے ساتھ کام کرنا چیلینجنگ ہوتا ہے، کیوں کہ اپنے حلقوں کو لے کر ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں جس میں وہ انہیں قصور وار بھی نہیں سمجھتے، کیونکہ اقلیتوں کے مسائل پر کام کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔تاہم اس کا حل وہ ایسے دیکھتے ہیں کہ اقلیتی اراکین اسمبلی کے لئے ایک الگ ڈائریکٹوریٹ بنا دیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کے اہل ہوسکیں۔ اسی طرح اسمبلی میں اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ ڈیبٹ ہونی چائیے کہ اقلیت کی نمائندگی کیسے بڑھائی جائے۔
ریزرو سیٹ پر منتخب  ہونے والے اقلیتی نمائندوں کے اختیارات:
سکھ برادری کے سماجی رہنما رودرپرتاپ سنگھ کہتے ہیں کہ ریزروو سیٹ پر منتخب ہونے والے ہمارے لیے کیا آواز اٹھائیں گے۔انھیں ہم نہیں پارٹی منتخب کرتی ہے اور ان کے استعفے پارٹی کے پاس رکھے ہوتے ہیں۔ شور مچائیں گے تو گھر جائیں گے لہٰذا وہ پارٹی سے ہٹ کر ہمارے لیے کچھ نہیں کہہ سکتے۔


رودرپرتاپ سنگھ اقلیتی نمائندوں کے متعلق مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ  ہمارے لوگ ریزرو سیٹ کے نمائندوں کو ہومیو پیتھک دوا کہتے ہیں جس کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ نقصان۔ مذہبی اقلیتوں کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یہ نمائندے ہمارا ساتھ دینے کی بجائے اپنی پارٹی کی طرف دیکھتے ہیں، نہ ہی یہ اقلیتوں کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ تق ایسے نمائندوں کا کیا فائدہ ۔ 


رودرپرتاپ سنگھ کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے لئے صوبے میں مخصوص آٹھ نشستیں اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں ناکافی ہیں، ان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ اکثریتی اراکین اسمبلی یا منتخب نمائندوں کے مقابلے میں انہیں ایوان میں کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی، یہاں تک کہ انہیں مطلوبہ فنڈز سے بھی محروم رکھا جاتا ہے، نتیجتاً وہ اپنی کمیونٹی کو اس طرح سے ڈیلیور نہیں کرپاتے جو اکثریتی نمائندے کرسکتے ہیں. 


معروف صحافی جمشید رضوانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں 49 حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتی برادری کے نمائندگان الیکشن لڑیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو اگر سیاسی اور قومی دھارے میں شامل کرنا ہے تو ان کیلئے انتخابات کا طریقہ کار اپنانا ہوگا، جداگانہ طرز انتخابات بھی اس کا مؤثر طریقہ ہوسکتا ہے یا پھر الیکشن ایکٹ میں لازمی قرار دیتے ہوئے خواتین کی طرح ہی اقلیتوں کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا پابند بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ مذہبی اقلیتیں پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد ہیں، جہاں ان کی اکثریت ہے وہاں برابری کی سطح پر انہیں سیاسی نمائندگی بھی ملنی چاہیے۔لہٰذا اقلیتی برادری کو ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا جداگانہ حق دئیے جانے کے بعد ان کے لئے سیٹوں میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔

نوٹ:رپورٹ میں دئیے گئے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ایڈیٹر

سکالر ابلاغیات وسیم شہزاد کا تعلق ملتان سے ہے، وہ گزشتہ 8 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات ، تعلیم ، کلچر ادب ، سیاحت و آثار قدیمہ ، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے رہے۔

مزیدخبریں