لیول پلیئنگ فیلڈ کیس، الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کروائے؟ چیف جسٹس

Jan 08, 2024 | 15:59:PM

(24 نیوز) لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق کیس کی سماعت کی، بنچ میں میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہو گئے۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تفصیلی رپورٹ جمع کروائی ہے، اس رپورٹ میں کوئی خامیاں ہیں تو عدالت کو بتائیں،چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ پڑھی ہے؟۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ رپورٹ میں الیکشن کمشنر پنجاب کے تحفظات کا کوئی ذکر نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ یہاں کھڑے ہو کر الیکشن کمیشن کی رپورٹ کو مسترد نہیں کرسکتے،لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کو کہا کہ میں آپ کی توجہ آپ کے ہی آرڈر کی طرف دلانا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اپنے آرڈر کا پتا ہے آپ کیوں توجہ دلا رہے ہیں؟،جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل پی ٹی آئی کو کہا کہ رپورٹ کے مطابق آپ کے 1195 لوگوں نے کاغذات جمع کروائے، ہمارے سامنے چیف سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کی رپورٹس ہیں۔

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ ان رپورٹس کو جھٹلا رہے ہیں تو جواب میں تحریری طور پر کچھ لانا ہو گا،لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی فرنٹ لائن امیدوار کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں ہوئے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اپنے جواب میں خود کہہ رہے ہیں کہ ٹریبونلز نے آپ کو ریلیف دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کیا یہ چاہتی ہے کہ 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہوجائیں؟ جو چاہتے ہیں وہ بتا دیں یہ قانون کی عدالت ہے زبانی تقریر سے نہیں چل سکتی،چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ مجھے لگ رہا ہے آپ انتخابات کا التواء چاہتے ہیں، ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ انتخابات ہوں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کی شرح 76.18 فیصد ہے، آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ٹریبونل نے آپ کے امیدواروں کی اپیلیں بھی منظور کی ہیں، رپورٹ کے مطابق تو زیادہ تر کاغذات نامزدگی منظور ہی ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے اس پر لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ پھر کہہ دیں کہ آپ کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہونے چاہئیں، یہ کورٹ آف لاء ہے،وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن پنجاب کا خط دیکھیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کا اپنا الیکشن سیل ہے تو آپ کے پاس امیدواروں کے اعداد وشمارکیوں نہیں؟،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا حکم چاہتے ہیں؟ عدالت کو بتائیں تاکہ کردیں، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے۔

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے دکھڑے نہ سنائیں، اگر آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں تو کیا کریں؟ یہ کوئی سیاسی فورم نہیں ہے کھوسہ صاحب اور بہت سے سیاسی فورم ہیں انہیں استعمال کریں،لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں ابھی تک جلسہ کرنے کی اجازت نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ اور طرف چلے گئے ہیں، آپ نے جس آرڈر کے خلاف درخواست دائر کی ہے اس پر رپورٹ آگئی ہے، ہم خود آج سارا کچھ لائیو دکھا رہے ہیں، رپورٹ اتنی موٹی آگئی ہے اس میں دکھائیں کیا غلط ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے لطیف کھوسہ سے مکالمے میں کہا کہ لفاظی نہ کریں حقائق بتائیں،لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی کے کاغذات بھی مسترد ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آر اوز کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی کے کاغذات مسترد نہ کریں، کوئی جینوئن چیزبتا دیں جسے ہم دیکھ لیتے ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ دفعہ 144 لگا کر ہمارے خلاف کارروائی ہورہی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکومت نہیں سپریم کورٹ ہیں، دفعہ 144 اور ایم پی او سب کیلئے ہوگا صرف پی ٹی آئی کیلئے نہیں، ہمارے سامنے نہ دفعہ 144 نہ ہی ایم پی او کو چیلنج کیا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ مجھے لگ رہا ہے آپ الیکشن میں تاخیر چاہتے ہیں، اور ان سے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہئیں؟جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا، 100 فیصد الیکشن چاہئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہاں یا نہ میں بتائیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کروانا ہے، یہ آپ کے بنائے ہوئے ادارے ہی ہیں، پارلیمان نے ہی بنائے ہیں یہ ادارے، ان اداروں کی قدر کریں، اگر ان کی جانب سے بیان کیے گئے حقائق غلط ہیں توتردید کریں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی اور جماعت کے رہنما پر ایم پی او نہیں لگا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق پیپلز پارٹی، ن لیگ سمیت سب جماعتیں آپ کے خلاف سازش کر رہی ہیں؟،لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کی پوری حکومت ہمارے خلاف تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو پی ڈی ایم کی حکومت ہی نہیں ہے،لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہماری بلے کے نشان کی واپسی کیلئے درخواست مقرر ہی نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کا ایم پی او سے کیا تعلق ہے؟ الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کرائے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر جو کہ ڈی سیز ہیں وہی ایم پی او جاری کر رہے ہیں، روزانہ ہمارے خلاف آرڈرز ہورہے ہیں، کیا ہم انتخابات نہ لڑیں صرف مقدمے بھگتیں؟جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت سے سوالات نہ کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے ہمارا نہیں، کسی سے کاغذات چھینے جارہے ہیں یا جو بھی ہورہا ہے وہ الیکشن کمیشن نے دیکھنا ہے، ہم نے واضح کیا تھا کہ انتحابات کی تاریخ صدر اور الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیارسے متعلق معاملات عدالت کیوں سنے؟ ہمارے سامنے کچھ دائر ہوگا تو ہم اسے دیکھیں گے، اگر ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور ہمیں بھی دیکھنا چاہیے تو یہ بات غلط ہے، کوئی درخواست آئے گی شکایت آئے گی تو ہم سنیں گے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے کا پلان ہے، بانی پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں ہمارے سامنے اس وقت بانی پی ٹی آئی کی کوئی درخواست نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جتنی درخواستیں آپ کی آ رہی ہیں اتنی کسی اور کی نہیں آ رہیں، جب آپ کی حکومت تھی تب بھی سب سے زیادہ درخواستیں آپ کی ہی آتی تھیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت سے درخواست کی کہ استدعا ہے آج ہی کیس سماعت کے لیے مقرر کر کے سنا جائے، کل پشاور ہائی کورٹ میں بلے کے نشان سے متعلق سماعت ہے، آج کسی بھی وقت کیس کی سماعت کر لیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حامد خان کہاں ہیں؟ انہیں بلائیں، اگر آپ اٹھ کر کمرہ عدالت آنے کی زحمت نہیں کریں گے تو ہم کیا کریں؟ سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں، کیس بھی لگوانا ہے اور اٹھ کر عدالت بھی نہیں آنا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست کل ہی سماعت کیلئے مقرر کر دیتے ہیں،جس پر پی ٹی آئی وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کل ہمارا پشاور ہائی کورٹ میں کیس ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر حامد خان نہیں آنا چاہتے تو ان کی مرضی۔

اس کے بعد لطیف کھوسہ نے عدالت سے مزید دستاویزات جمع کروانے کیلئے مہلت مانگ لی۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ پر جواب کیلئے تین دن کی مہلت دے دی اور کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل تین روز میں جواب جمع کرائیں۔

بعدازاں عدالت نے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں